All posts by mshijazi

بحیرہ بالٹک کی فضائی حدود میں روسی اور امریکی طیاروں کا آمنا سامنا

ماسکو(این این آئی)روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس کا ایک جنگی طیارہ بحیرہ بالٹک کے اوپر دو امریکی بمبار طیاروں کی طرف بھیجا گیا تھا جو روسی سرحد کے قریب آ رہے تھے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وزارت دفاع نے ٹیلیگرام پر کہا کہ روسی سرحدوں سے دو غیر ملکی جنگی طیاروں کے انخلا کے بعد، روسی لڑاکا طیارہ واپس اپنے فضائی اڈے پر آگیا تھا۔

وزارت دفاع نے کہا کہ زیربحث دو طیارے امریکی فضائیہ کے B-1B اسٹریٹجک بمبار تھے اور وہ روسی سرحدوں کے قریب آرہے تھے۔ انہوں نے ایک Su-27 لڑاکا طیارے کو ان کو روکنے کے لیے بھیجا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ روسی سرحد کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ روسی وزارت دفاع نے کہا کہ “روسی لڑاکا طیارے کی پروازکے دوران بین الاقوامی فضائی حدود کے قوانین کی سختی سے تعمیل کی گئی ۔روسی طیاروں اور نیٹو کے دیگر ممالک کے درمیان حادثات میں حالیہ برسوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، حتی کہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

گذشتہ ہفتے بھی بحیرہ بالٹک کے اوپر ایک روسی لڑاکا طیارے اور دو فرانسیسی اور جرمن فوجی طیاروں کے آمنا سامنا ہوا تھا۔مئی کے شروع میں وارسا نے اطلاع دی کہ ایک روسی طیارہ بحیرہ اسود میں کام کرنے والے پولش سرحدی محافظ طیارے کے پاس پہنچا جس سے اسے خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ایک ماہ قبل دو روسی جنگی طیارے بحیرہ اسود میں امریکی ریپر MQ-9 کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے، جو بعد میں سمندر میں گر کر تباہ ہو گئے۔ اس واقعے سے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔

برٹش ایئرویز نے حجاب آپشن کے ساتھ نئی وردی متعارف کرا دی

لندن (این این آئی )برطانیہ کی قومی فضائی کمپنی برٹش ایئرویز(بی اے)نے اپنی نئی وردی ملازمین میں تقسیم کرنا شروع کر دی ہے۔اسے فیشن ڈیزائنر سیوائل رو اور درزی اوزوالڈ بوتینگ نے تیارکیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق برطانوی فضائی کمپنی کی وردی میں گذشتہ قریبا بیس سال میں یہ پہلی بڑی تبدیلی کی گئی ہے۔

اس میں مردوں کے لیے تیار کردہ تھری پیس سوٹ اور خواتین کے لیے کئی اختیار(آپشنز)شامل ہیں۔ان میں خواتین عملہ کے لیے ایک جدید جمپ سوٹ متعارف کروایا گیا ہے اوریہ کسی بھی ایئرلائن میں متعارف کردہ پہلا لباس ہے۔اس نئی وردی میں حجاب کا آپشن اور نیم آستین والی شرٹ بھی موجود ہے۔

برٹش ائیرویز کا کہناتھا کہ نئی وردی کے رنگ طیارے کے پر کے اوپر ہوا کی نقل و حرکت سے متاثر ہے جبکہ حجاب کو ثقافتی اور مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے آرام اور سہولت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔جیسے جیسے عملہ نئی یونیفارم پہننا شروع کرے گااور اپنے جولین میکڈونلڈ کپڑے واپس کرے گا توانھیں خیراتی اداروں کو عطیہ کردیا جائے گا یا کھلونے اور ٹیبلٹ ہولڈرز جیسی اشیا بنانے کے لیے دوبارہ استعمال میں لایا جائے گا۔ کچھ ٹکڑوں کو ایئر لائن کے میوزیم کے مجموع میں شامل کیا جائے گا۔

اگرعدلیہ بھی آبدیدہ اور بے بس ہوگئی تو پھر ملک کا اللہ ہی وارث ہے، شیخ رشید

لاہور( این این آئی) سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ آج کل پریس کانفرنس نہیں پریشرکانفرنس ہورہی ہیں،دو تین مہینے سسرال جیل کاٹنے سے قیامت نہیں آجاتی ،میں نے کلاشنکوف کے جھوٹے مقدمے میں7سال قید کاٹ کاٹی ،کڑیاں والا قتل اور 2 مرتبہ ختم نبوت میں بھی سسرال گیا ہوں اور اب پھر جانے کو تیار ہوں ،جب تک گرفتار نہیں ہوتا روزانہ ٹوئٹ جاری رہے گی۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں شیخ رشید نے کہا کہ معاشی اقتصادی سیاسی تباہی کاملبہ موجودہ نااہل حکومت پرگرناچاہیے کسی اورپرنہیں ،پاکستانی روپیہ ٹکا ٹوکری ہوگیاہے ،معلوم نہیں ڈالر کہاں پررکے گا،مسئلہ اقتصادی ہے سازش کے تحط سیاسی بنادیاگیاہے تاکہ مصنوعی بجٹ پیش کیا جاسکے ،اگرعدلیہ بھی آبدیدہ اور بے بس ہوگئی تو پھر ملک کااللہ ہی وارث ہے۔انہوں نے کہا کہ جیل سے رہائی تحریری سیاسی توبہ کی مرہون منت ہے ،ساری قوم9مئی کے واقعہ کی مذمت کرتی ہے اورملزموں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتی لیکن چادراورچاردیواری اورخواتین کااحترام ضروری ہے ،میرے خیال میں لیول پلینگ فیلڈ ہوچکاہے ،اگرنہیں ہواتو15 جون تک ہوجائے گا اب سلیکشن ختم اورالیکشن ہونے چاہئیں۔

میرا پارٹی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ،فرخ حبیب

مکوآنہ (این این آئی)پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ میرا پارٹی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔فرخ حبیب نے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ عمران خان اہم ہیں جو اپنے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں، لوگوں نے عمران خان کو منتخب کیا ووٹ دیا لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک سال سب نے دباؤ برداشت کیا لیکن اب چیزیں دباؤ سے باہر نکل گئیں، جب فیملی اور ذاتی کاروبار پر حملے شروع ہوجائیں تو دباؤ برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔

فرخ حبیب نے کہا کہ میری ہمدردیاں 70 سالہ شیریں مزاری کے ساتھ ہیں، 5 مرتبہ شیریں مزای کو گرفتار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری ہیومن رائٹس کی چیمپئن ہیں انہیں توڑنے کی کوشش کی گئی کسی کے گھر کی دیوار گرادی گئی، کسی کا کاروبار ختم کردیا تو کسی کا پمپ توڑا گیا۔فرخ حبیب نے کہا کہ لوگوں کے خلاف غیرقانونی کارروائیاں کی جارہی ہیں، خرم دستگیر کا پیٹرول پمپ گرایا گیا اگر غیرقانونی تھا تو کلیم کرتے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارے لوگوں کے قانونی کاروبار کو غیرقانونی طریقے سے ختم کیا جارہا ہے۔

مشہور بھارتی ڈرامے کی اداکارہ کار حادثے میں ہلاک

ممبئی (این این آئی)بھارتی سِٹ کام ’سارا بھائی ورسیز سارا بھائی‘ سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ ویبھاوی اپادھیائے کار حادثے میں چل بسیں۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اسٹوری شیئر کرتے ہوئے پروڈیوسر جے ڈی مجیتھیا نے اداکارہ کی موت کی خبر مداحوں کو دی کہ ان کی گاڑی کو بھارت کے شمالی علاقہ جات میں حادثہ پیش آیا۔

انہوں نے اسٹوری شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ زندگی بہت غیر متوقع ہے، ایک بہترین اداکارہ اور دوست ویبھاوی اپادھیائے، جنہوں نے ’سارا بھائی ورسیز سارا بھائی‘ میں ’جیسمین‘ کا کردار نبھایا تھا ان کی گاڑی بھارت کے شمالی علاقہ جات میں حادثے کا شکار ہوگئی جس کے نتیجے میں انہوں نے زندگی کی بازی ہار دی‘۔جے ڈی مجیتھیا نے گزشتہ شب انسٹا اسٹوری شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ان کے اہل خانہ آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے انہیں (آج) صبح 11 بجے ممبئی لے کر آئیں گے‘۔خیال رہے کہ ویبھاوی اپادھیائے نے دیپیکا پڈوکون کے ساتھ 2020 میں فلم ’چھپاک‘ اور ’تیمیر‘ (2023) میں بھی کام کیا تھا۔

پاکستان میں ہر شعبے میں میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے، سویرا شیخ

لاہور( این این آئی)اداکارہ و ماڈل سویرا شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر شعبے میں میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،حال ہی میں سنسر بورڈ تشکیل دیا گیا ہے اس میں بھی میرٹ کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے ، توقیر ناصر ٹی وی کے اداکار ہیں اور ان کا فلم کا کوئی تجربہ نہیں لیکن انہیں چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔

ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ فلم سنسر بورڈ کے لئے بلکہ اسی شعبے سے بندے کو لینا چاہیے ۔اس کے لئے شاہد ،سید نور ،الطاف حسین ، پرویز کلیم، ناصر ادیب ، اشفاق کاظمی جیسے لوگ موجود ہیں جنہیں نظر انداز کر کے غیر متعلقہ لوگوں کو چیئرمین بنانا سمجھ سے بالا تر ہے ۔

الیکشن سے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے،سپریم کورٹ

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کیلطے دی گئی تاریخ پر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہیں انتخابات سے پنجاب، خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔منگل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔

سماعت کے آغاز میں وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اور پنجاب حکومت نے عدالت میں جو جواب جمع کرایا وہ ہمیں ابھی ملا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شاید تحریک انصاف نے جواب جمع نہیں کرایا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت کسی فریق کے جواب کی کاپی نہیں ملی۔وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ تمام جوابات کا جائزہ لینے کیلئے موقع دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی درخواست پر تو دلائل دیں، آئندہ سماعت پر کوئی نیا نکتہ اٹھانا ہوا تو اٹھا سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کردیا۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں شکوہ کیا کہ کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلے یہ بتاناہے کہ کیسے نظرثانی درخواست میں نئے نکات اٹھاسکتے ہیں۔وکیل الیکشن سجیل سواتی نے دلیل دی کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھایا جاسکتا ہے تاہم کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار دیوانی اور فوجداری مقدمات میں محدود ہوتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بنیادی حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے تاہم وکیل الیکشن کمیشن نے استدلال کیا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کا ایک حصہ عوامی مفاد دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہو کر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہاکہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات سے پنجاب خیبرپختونخوا کے کروڑوں عوام کے حقوق وابستہ ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے، نظر ثانی کیس میں آپ کا مؤقف ہے کہ دائرہ کار محدود نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 184 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظر ثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، نظرثانی میں ضابطے کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ کی دلیل ہے 184(3) میں نظرثانی کو اپیل کی طرح سماعت کی جائے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں 184(3) میں نظرثانی اپیل دراصل اپیل ہی ہوتی ہے، مقدمے میں نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں لیکن ان نکات پر عدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں۔

جسٹس اعجاز لاحسن نے کہا ریمارکس دئیے کہ آپ کی دلیل مان لیں تو نظر ثانی میں ازسرنو سماعت کرنا ہوگی، آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کار یکساں ہوگا۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لیکن آئین میں دائرہ کار محدود بھی نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ نظرثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں، آئین نے آرٹیکل 184(3) میں اپیل کا حق نہیں دیا، دائرہ اختیار بڑھانے کیلئے آئین واضح ہونا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو بہت پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نظرثانی میں عدالت کو مکمل انصاف کیلئے آرٹیکل 187 کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے، عدالت کا تفصیلی فیصلہ آجائے تو زیادہ آسان ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت اس کارروائی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ماضی میں حکومت بینچ پر اعتراض کرتی رہی ہے، کبھی فل کورٹ کبھی 4 تو کبھی 3 رکنی بینچ کا نکتہ اٹھایا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو باتیں آپ نے لکھ کر دی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں، کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو یہ مؤقف اپنانے پر مجبور کیا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نیا مؤقف تو اپیل میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔بعدازاں کیس کی مزید سماعت (آج) بدھ دوپہر سوا 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔تحریک انصاف نے پنجاب الیکشنز نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا جس میں عدالت عظمیٰ سے نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔جواب میں اعتراض اٹھایا گیا کہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئینکات اٹھائے ہیں، حالانکہ نظرثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی بلکہ 90روز میں انتخابات کے لیے ڈیڈلائن مقرر کی تھی اور صدر مملکت نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دی تھی جسے الیکشن کمیشن نے تبدیل کردیا تھا۔جواب میں پی ٹی آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کافیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاریخ میں ہوئی 13 روز کی تاریخ کو کور کیا تھا۔پی ٹی آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے افعال کا جائزہ لینے کا اختیار ہے،

الیکشن کمیشن چاہتا ہے سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے جبکہ نظریہ ضرورت دفن کیا چکا جسے زندہ نہیں کیا جاسکتا۔جواب میں پی ٹی آئی نے کہاکہ 90 روز میں الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے، آرٹیکل 218 کی روشنی میں آرٹیکل 224 کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اپنے جواب میں پی ٹی آئی نے دلیل دی کہ آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے، الیکشن کمیشن کے کہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔

تحریک انصاف نے کہا کہ آرٹیکل 254 کے لیے 90 روز میں انتخابات کے آرٹیکل 224 کو غیر مؤثر نہیں کیا جاسکتا، آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کے لیے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لیے مسترد کرچکی ہے۔واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے،

آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور اسٹیٹک فورس کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔

کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرائے جائیں۔

لوگوں سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جارہی ہے،عمران خان

اسلام آباد (این این آئی)چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پارٹی چھوڑنے والوں سے متعلق سوال پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جارہی ہے۔انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی جماعت میں سے مسرت چیمہ اور جمشید چیمہ پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس پر عمران خان نے کہا کہ یہ پارٹی چھوڑکر نہیں جا رہے، ان سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جا رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ مجھے اپنی پارٹی کی خواتین کی گرفتاری کا سب سے زیادہ دکھ ہے۔

عمران خان سے نیب کی تفتیش، القادر یونیورسٹی کو ملنے والے عطیات کا ریکارڈ مانگ لیا

اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیراعظم عمران خان برطانیہ سے 190ملین پاؤنڈ کی منتقلی کے کیس میں نیب کے سامنے شامل تفتیش ہوئے۔نیب راولپنڈی نے عمران خان سے القادر یونیورسٹی کو ملنے والے عطیات کا ریکارڈ مانگ لیا۔منگ لکو جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے بعد عمران خان نیب راولپنڈی آفس پہنچے،

عمران خان کی اہلیہ نیب راولپنڈی آفس کے باہر گاڑی میں موجود رہیں۔نیب نے سابق وزیر اعظم کو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے 190 ملین پاؤنڈ منتقلی اسکینڈل کی تحقیقات میں شامل تفتیش ہونے کیلئے طلب کیا تھا، اس سے قبل نیب ٹیم نے عمران خان کو 18 مئی کو طلب کیا تھا تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔ عمران خان نے اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیا تھا، گزشتہ دنوں نیب نے عمران خان کو اسی کیس میں گرفتار کیا تھا۔

نیب کی کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم نے عمران خان کو باضابطہ شامل تفتیش کرلیا۔ذرائع کے مطابق عمران خان سے کیس سے متعلق 20 سوالات کے جواب طلب کیے گئے۔نیب کی جانب سے عمران خان سے برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ خط وکتابت کے ریکارڈ سے متعلق سوالات کیے گئے، نیب نے عمران خان سے 19 کروڑ پاونڈز کے فریزنگ آرڈرز کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق عمران خان نے بتایا کہ 190 ملین پاؤنڈز سے متعلق فیصلے کا ریکارڈ کابینہ ڈویژن کے پاس ہے،

این سی اے برطانیہ کے ریکارڈ تک میری رسائی نہیں، القادر ٹرسٹ کا ریکارڈ نیب کو پہلے ہی مل چکا ہے۔ذرائع کے مطابق نیب نے عمران خان سے القادر یونیورسٹی سے ملنے والے تمام عطیات کا ریکارڈ طلب کرلیا، عمران خان سے القادر ٹرسٹ کو عطیات دینے والوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے، عمران خان نے خود القادر ٹرسٹ کوکتنے عطیات دئیے؟ اس کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق القادر یونیورسٹی کے پنجاب ہائر ایجوکیشن سے الحاق کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے، القادرٹرسٹ اور ملزمان کی کمپنی کے درمیان ٹرسٹ ڈیڈ کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے۔

فیاض الحسن چوہان کا پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ 9 مئی کے واقعات پر پاکستان کے عوام کی طرح میں بھی دکھی ہوں، ریاست یا اداروں سے ٹکرانا سیاست دان کا کام نہیں ہوتا،عمران خان کو عدم تشدد کی سیاست کا مشورہ دیا تھا،

پارٹی میں پچھلے ایک سال سے کھڈے لائن تھا، آج کے بعد پی ٹی آئی سے میرا کوئی تعلق نہیں ،سیاست نہیں چھوڑ رہا ہوں ۔منگل کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ میں نے جیل خانہ جات، محکمہ ثقافت اور اطلاعات ڈی جی پی آر میں جو اصلاحات کی ہیں وہ کسی اور وزیر نے نہیں کیا۔فیاض الحسن نے کہا کہ میں عمران خان کا میڈیا ایڈوائزر تھا، 9 تاریخ کا واقعہ ہوا،

جس پر پاکستان کے پورے عوام دکھی تھے اور میں بھی ان میں شامل ہوں کیونکہ فوج کے ساتھ محبت میری ذات، میرے خاندان اور میری اولاد کے خون میں رچی بسی ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کے اندر پاکستان کی خدمت کرتا رہوں گا اور پاکستان کے خلاف ہونی والی سازشیں بے نقاب بھی کروں گا۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ آج میں برملا یہ بات کروں گا جو 9 مئی تک پہنچی، اس کا راستہ روکنے کیلئے پارٹی کی قیادت میں سے کوئی بندہ نہیں تھا کہ عمران خان کے راستے میں کبھی زبانی، کلامی، اجلاس میں، ترجمانوں اور قیادت کے اجلاس میں کبھی انہیں سمجھایا ہو یا بتایا ہو کہ سیاست عدم تشدد کے ساتھ ہمیں کرنی چاہیے اور سیاست کے اندر دہشت گردی یا انتہاپسندی نہیں لانی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ ریاست یا اداروں سے ٹکرانا سیاست دان کا کام نہیں ہوتا، یہ پوری قیادت میں سے اگر کسی نے کام کیا تو واحد فیاض الحسن چوہان تھا، جس کی پاداش میں پچھلے ایک سال میں پارٹی کے اندر کھڈے لائن تھا۔انہوں نے کہاکہ حکومت ختم ہونے کے بعد مئی میں کسی کی بڑی سفارش کے ساتھ بڑی مشکل کے ساتھ میڈیا یڈوائزر کا عہدہ لیا لیکن اس کے 5 دن بعد زمان پارک اور بنی گالہ میں میرا داخلہ ممنوع کردیا۔انہوں نے کہا کہ زمان پارک اور بنی گالہ میں داخلے پر پابندی اس لیے لگی کیونکہ پچھلے مئی کے آخر میں عمران خان کو میں نے تقریباً 7 منٹ کا پیغام بھیجا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ایک مہینے بعد ایک اور پیغام دیا کیونکہ پہلے پیغام کے بعد وہ ملاقات کا موقع نہیں دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں عمران خان کو بڑے درد دل سے ایک بات سمجھائی کہ ہم قائد اعظم کے پیروکار ہیں، تشدد کی پالیسی چھوڑ دیں، ریاست اور اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی چھوڑ دیں اور اپنی جدوجہد سیاسی رکھیں اور پی ڈی ایم اور موجودہ حکومت کے خلاف جدوجہد کریں، ان کو بے نقاب کریں اور ہدف تنقید بنائیں۔سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ اعلان کر رہا ہوں کہ پی ٹی آئی سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن سیاست نہیں چھوڑ رہا ہوں۔

فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ میں نے جیل خانہ جات، محکمہ ثقافت اور اطلاعات ڈی جی پی آر میں جو اصلاحات کی ہیں وہ کسی اور وزیر نے نہیں کیا۔پی ٹی آئی رہنما فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہمارے پاس بظاہر عہدہ تھا لیکن پارٹی کے اندر شہباز گل، فواد چوہدری، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، عالیہ حمزہ، شیریں مزاری مقبول، مطلوب اور مقصود تھے کیونکہ وہ خان صاحب کو خوش کرنے کے لیے فوج کے حوالے سے ہر الٹی سیدھی، ترجمانوں کی زوم میٹنگ ہر دوسرے دن ہوتی تھی، جس میں بیٹھتا تھا لیکن ملنے اور اندر جانے کی کوئی اجازت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ برے وقتوں میں کور کمیٹی کا رکن تھا اور اس پیغام کے بعد کور کمیٹی سے نکال دیا گیا لیکن نظم و ضبط کی وجہ سے پارٹی اور اپنی قیادت کے ساتھ وفا کا دامن نہیں چھوڑا اور چلتے رہے۔انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز جب میری ضمانت ہوئی تو گھر والوں سے پوچھا کہ عمران خان نے میرے حوالے سے بھی کوئی ٹوئٹ کیا تو کوئی نہیں تھا، میں ایک دفعہ دنگ رہ گیا کیونکہ میں نے اپنا گھر تباہ کردیا، گھر کے 4 لوگ گرفتار ہوئے۔سابق صوبائی وزیر نے کہا کہ عمران خان کو شیریں مزاری، سینیٹر فلک ناز اور دیگر یاد آئے لیکن فیاض چوہان یاد نہیں آیا، جس کے ساتھ سب سے زیادہ تباہی ہوئی تھی مگر ایک لائن نہیں آئی۔

آرمی چیف سمیت کسی سے بھی مذاکرات کیلئے تیار ہوں ،عمران خان

اسلام آباد (این این آئی)چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف سمیت کسی سے بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں ، تالی دو نوں ہاتھوں سے بجتی ہے،تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، سیاستدان اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرتے ہیں نہ کہ بندوقوں کے ذریعے ،اس وقت پاکستان میں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، یہ جنگل کا قانون ہے،

حکومت عدالتوں کا حکم نہیں مان رہی، جب عدالت ریلیف دیتی ہے تو حکومت کوئی پرواہ نہیں کرتی۔برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ خدشہ ہے یہاں بات کرنے کو کوئی ہے ہی نہیں، موجودہ صورت حال میں وزیراعظم غیر متعلق ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ان کے بیٹے ان کیلئے فکر مند ہیں، بیٹوں کو نہ صرف ان کے قتل بلکہ جیل میں جانے کا بھی خوف ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میں ایک سیاستدان ہوں، آرمی چیف، اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی مذاکرات چاہتا ہوں لیکن تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور مجھے خدشہ ہے یہاں بات کرنے کو کوئی ہے ہی نہیں، ان کے بیان پہلے ہی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، بیانات خوفزدہ کرنے والے ہیں، اگر آپ پڑھیں تو وہ کہہ رہے ہیں کہ جو بھی ہو وہ ہر صورت میری پارٹی پی ٹی آئی ختم کر دیں گے، تو پھر آپ کس سے بات کریں گے؟

وزیراعظم کا کوئی تعلق ہی نہیں، یہ بس کٹھ پتلیاں ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ سیاستدان کو ہر وقت کسی کے بھی ساتھ مذاکرات کیلئے تیار رہنا چاہیے، سیاستدان اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرتے ہیں نہ کہ بندوقوں کے ذریعے، میں نے صرف یہ کہا تھا کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے اٹھایا گیا، اغوا کیا گیا، تو یہ پولیس نے نہیں آرمی نے کیا تھا، میں نے صرف یہی کہا تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا تھا، یہ حقیقت ہے، لیکن میں نے کوئی تضحیک آمیز بیان نہیں دیا۔

عمران خان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ مجھے گرفتار کیے جانے کا 80 فیصد امکان ہے، بے شک میرے خلاف کوئی کیس نہیں ہے، تمام کیسز میں مجھے ضمانت مل چکی ہے، اس وقت پاکستان میں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے، یہ جنگل کا قانون ہے، انہوں نے میری تمام سرکردہ قیادت کو گرفتار کرلیا ہے، درحقیقت 10 ہزار سے زائد پی ٹی آئی ورکرز اور سپورٹرز اس وقت بغیر کسی الزام کے جیل میں ہیں، وہ عدالت سے ضمانت لیتے ہیں اور جیسے ہی جیل سے باہر آتے ہیں انہیں دوبارہ اٹھا لیا جاتا ہے، یہ جو بھی ہو رہا ہے، غیر قانونی ہے، عدالتیں آخری امید ہیں لیکن حکومت عدالتوں کا حکم نہیں مان رہی، جب عدالت ریلیف دیتی ہے تو حکومت کوئی پرواہ نہیں کرتی۔

فیصل واوڈا کا پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر پر حملے کی پلاننگ کا انکشاف

اسلام آباد(این این آئی)پی ٹی آئی کے سابق وزیر فیصل واوڈا نے تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر پر حملے کی پلاننگ کا انکشاف کیا ہے۔ایک انٹرویومیں فیصل واوڈا نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کے 11 لوگ 8 مئی سے 9 مئی تک میرے گھر تھے، ان لوگوں کو یہ ہدایت کی جارہی تھی کہ وہ اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر بھی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ 11 لوگ کچھ سرگرمی کرتے تو میں انہیں پکڑوا دیتا۔فیصل واوڈا نے کہا میں نے ان سے کہا اگر آپ نے ایسا کیا، اور آپ میرے گھر ہوئے تو میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا، جس پر ان 11 افراد نے جواب میں کہا کہ ہم نہ اس چیز کا حصہ بننا چاہتے ہیں، نہ بنیں گے۔فیصل واوڈا نے کہا کہ عمران خان کو گھڑی اسکینڈل میں تین چار کروڑ روپے ملے، باقی کے بیس پچیس کروڑ اپنے پرائے سب نے مل کر لوٹے۔