امید اچھی رکھو لیکن تیاری برے حالات کے حساب سے کرو


مُحبت مُجھے اُن جوانوں سے ہے تاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک روک دیا

اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا پراسیس مکمل نہ ہونے، فرد جرم اور ان کیمرا سماعت کے خلاف درخواستوں پر سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی جبکہ عدالت نے آئندہ سماعت تک سائفر کیس کے ٹرائل کو آگے بڑھنے سے روکتے ہوئے حکم امتناع جاری کردیا۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا پراسس مکمل نہ ہونے، فرد جرم اور ان کیمرا سماعت کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبار دگل عدالت میں پیش ہوئے، ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوشن ٹیم بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئی، عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مجھے 2 سوالات کے جوابات چاہیے، اس عدالت نے کہا تھا کہ اوپن ٹرائل ہونا چاہیے تو ان کیمرہ سماعت کیوں شروع ہوئی؟ سیکیورٹی عدالتی دائرہ اختیار نہیں، اس میں ہم مداخلت نہیں کریں گے۔

انہوں نے ریماکرس دئیے کہ جیل ٹرائل اگر کرنا ہے تو ان کیمرہ سماعت کیوں ہو رہی ہے؟ چلیں جیل ٹرائل ٹھیک ہے مگر جیل میں بھی اوپن ٹرائل ہونا چاہیے۔ سائفر کیس میں لوگوں کو جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آپ نے عدالت کو بتایا کہ فیملی کے افراد اور میڈیا کو بھی جیل میں کمرہ عدالت جانے کی اجازت تھی، مگر ابھی پھر سے درخواست آئی کہ سائفر کیس کی سماعت کو ان کیمرا قرار دیا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پورے کیس کو ان کیمرہ نہیں رکھا گیا، کیس میں گواہوں کے بیانات کو قلم بند کرنے تک کا حصہ ان کیمرہ تھا، اس کیس میں تقریباً 25 گواہوں کے بیانات قلم بند کرانے تھے، 13 گواہوں کے بیانات قلم بند ہوگئے اور ان میں 2 گواہوں پر جرا ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ 15 دسمبر سے اب تک باقی 10 گواہوں پر ملزمان کے وکلا کی جانب سے جراح نہیں کی گئی، 13 گواہوں کے بیانات قلم بند ہونے کے بعد میڈیا کو سماعت سے آؤٹ کیا گیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ میڈیا کو اجازت نہیں دی تو کیا خاندان کے افراد سماعت میں بیٹھے ہوتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مزید 12 گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد عدالت نے میڈیا کو کمرہ عدالت جانے کی اجازت دے دی۔عدالت نے استفسار کیا کہ 14 دسمبر کا آرڈر جب پاس ہوا اور کہیں پر چیلنج نہیں کیا گیا تو پھر کیسے میڈیا کو اجازت ملی؟ گواہوں کے بیانات قلم بند کرنا ہوں اور سماعت ان کیمرا رکھنی ہو تو ایک طریقہ کار ہوتا ہے، جب گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے ہوں تو کمرہ عدالت سے لوگوں کو نکال دیں، جب گواہوں کے بیانات قلم بند ہو جائیں تو واپس متعلقہ لوگوں کو کمرہ عدالت آنے کی اجازت دے دیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کیس میں گواہوں کو 3 کیٹیگریز میں تقسیم کر رکھا ہے، سائفر کیس کے 10 گواہان پر ابھی جراح ہونا باقی ہے، کچھ گواہان کے بیانات قلم بند کرنے کے دوران میڈیا کو باہر رکھا گیا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ جو ا?پ بتا رہے ہیں یہ اوپن ٹرائل تو نہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ اپ اپنی مرضی سے کہیں کہ تم آجاؤ، تم آجاؤ۔اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 3 گواہوں کا تعلق وزارت خارجہ سے تھا جنہوں نے سائفر وصول کیا اور ڈی کوڈ کیا، وزارت خارجہ کے تینوں گواہوں کے بیانات اور جراح 15 دسمبر کو ہی ہوئی تھی، ایک اور گواہ جو سائفر کا کسٹوڈین ہے اس کا بیان قلم بند کرنے کے لیے ہم درخواست کریں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس کے 13 گواہوں کا اوپن ٹرائل ہو چکا اور جو 12 مزید رہ جاتے ہیں وہ بھی اوپن ٹرائل ہوگا، آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں، ہم نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اوپن ٹرائل کیا ہوگا۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اوپن ٹرائل نہ تو جج صاحب پر واضح ہے اور نہ ہی استغاثہ پر جس قانون کا سہارا لیا گیا، تب تو پاکستان تھا ہی نہیں بلکہ 1935 کا بھارتی قانون بھی نہیں تھا، 1923 میں انسانی حقوق اور بنیادی حقوق دنیا کو معلوم ہی نہیں تھے، ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس پر کیس بنایا گیا، یہ کیس ہمارے سامنے فرسٹ امپریشن ہے، یہ جوڈیشری کے لیے ایگزامن کرنا ہے، جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تب کتنے گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے تھے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت 13 گواہوں کے بیانات قلم بند تھے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ضمانت کے فیصلے میں کہا کہ شواہد ناکافی ہیں، کل کو اگر اپیل ا?تی ہے اور میں اس کو سن رہا ہوں تو آپ مجھ سے کیا توقع کر رہے ہوں گے؟ خصوصی عدالت کے جج کے اپنے ہی فیصلے میں سقم موجود ہیں، کبھی کبھی اچھا بھلا کیس ہوتا ہے مگر پھر اس کو خراب کر دیتے ہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب ان معاملات میں اپ کو بڑی گہرائی میں جانا ہوگا،

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قانون سے لکھیں، دنیا بھر میں قانون کی ہی منشا ہے۔سائفر کیس کے اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے پاکستان کریمنل ترمیمی قانون عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ 1958 کے سیکشن 20 کے قانون کا اس کیس پر اطلاق ہوتا ہے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ عباسی صاحب کمال کی بات ہے، آپ تو اٹارنی جنرل کو ہی پھنسا رہے ہیں، گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں، اٹارنی جنرل کو کم از کم ناراض تو نہ کریں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا جس قانون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں صرف سیکشن 20 کا ہی اطلاق ہوتا ہے؟

مجھے یہاں سمجھا دیں، وہ اٹارنی جنرل والی بات میں نے لائٹر نوٹ میں کی تھی، اس پر ایف آئی اے پروسیکیوٹر نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دئیے۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میں آج سماعت کو مکمل نہیں کر رہا، یہاں آئینی حوالے سے سقم موجود ہیں۔عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر رضوان عباسی کو مزید دلائل دینے سے روکتے ہوئے وکیل سلمان اکرم راجا کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا 3 گواہوں کے بیانات کو خفیہ رکھنا مقصود تھا، جن لوگوں کے بیانات کو خفیہ رکھنے کا کہا جا رہا ہے وہ انٹرنیٹ پر موجود ہے، گواہان کے بیانات کے سرٹیفائیڈ عدالتی فیصلے میں سب کچھ لکھا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سرٹیفائڈ کاپی آپ کے پاس ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی سرٹیفائیڈ کاپی میرے سامنے پڑی ہے۔اٹارنی جنرل نے سلمان اکرم راجا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کو عدالتی فیصلے کو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا چاہیے، اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سرٹیفائیڈ کاپی پبلک ڈاکیومنٹ ہوتی ہے، وہ سیکرٹ دستاویز نہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ اگر سائفر کی کاپی کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا تو سرٹیفائیڈ کاپی کیسے باہر جاتی ہے؟

عدالت نے سلمان اکرم راجہ کو سرٹیفائڈ کاپی عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے سرٹیفائیڈ کاپی عدالت کے سامنے پیش کر دی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہاں کیس ہے، چارج بھی، گواہان بھی اور ملزمان بھی، سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے فیصلے میں بھی مواد کو ناکافی قرار دیا تھا، میرا مائنڈ آج آپ نے بہت کلیئر کر دیا ہے۔دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی، بعد ازاں عدالت نے مختصر عبوری حکم سناتے ہوئے سائفر کیس کے ٹرائل میں 11 جنوری تک حکم امتناع بھی جاری کردیا، عدالت نے آئندہ سماعت تک ٹرائل کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

v>
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں
نیویارک (این این آئی)عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) نے تخمینہ لگایا ہے کہ رواں سال تارکین وطن کی ترسیلاتِ زر ہدرف سے زائد رہیں گی تاہم آئندہ مالی سال میں ترسیلاتِ زر کا حجم رواں مالی سال سے کم رہے گا۔آئی ایم ایف کے تخمینہ جات کے مطابق رواں مالی سال ترسیلات زر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی مالی سال کیدوران سب سے زیادہ رہیں گی تاہم رواں مالی سال کے مقابلے میں آئندہ مالی سال اس میں کمی آئے گی۔آئی ایم ایف کے مطابق اس کے بعد ہر مالی سال ترسیلات زر میں بتدریج اضافہ ہوگا اور مالی سال 2029۔30 تک ترسیلات زر بڑھ کر38 ارب48 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز پر پہنچ جائیں گیـآئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے مقابلے آئندہ مالی سال ترسیلات زرمیں کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے تاہم آئی ایم ایف نیرواں مالی سال ترسیلات زرحکومتی ہدف سے زیادہ رہنیکی توقع ظاہر کی ہےـآئی ایم ایف کے مطابق آئندہ مالی سال ترسیلات زر 35 ارب 76 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز اور رواں مالی سال ترسیلات زر 36 ارب 20کروڑ 10لاکھ ڈالرز رہنے کا تخمینہ ہے۔رواں مالی سال کے لیے ترسیلات زرکاحکومتی مقررہ ہدف30 ارب27کروڑ 80 لاکھ ڈالرز ہے جبکہ گذشتہ مالی سال ترسیلات زر کاح جم 30 ارب25 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز رہا تھا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے10 ماہ جولائی2024 سے لے کر اپریل2025 کے دوران ترسیلات زر 31 ارب 20 کروڑ ڈالرز رہیں جبکہ گذشتہ مالی سال اسی مدت میں ترسیلات زر کاحجم23 ارب90 کروڑ ڈالرز تھا،اس طرح یعنی رواں مالی سال کے پہلے10 مہینوں میں ترسیلات زر میں سالانہ بنیادوں پر 30 اعشاریہ 9 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیاـ


دلچسپ و عجیب

صحت
سردی میں فالج اور دل کے دورے کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے...
عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کی تشخیص کیلئے نیا ٹیسٹ متعارف کرادیا...
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 672ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں،ماہرین...
پاکستان میں سال میں ایک لاکھ چھاتی کے سرطان کے کیسز سامنے آئے ہیں...
پاکستان میں امراض قلب میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ...
پاکستان میں سالانہ 75 ہزار سے زائد بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں...
بلوچستان سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ، پولیو کے کیسز کی تعداد 15 ہو گئی...
اکتوبر میں ڈینگی کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری...

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Mshijazi. All Rights Reserved