اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صدرمملکت کی مشاورت سے عام انتخابات 8فروری کو کرانے کے نوٹیفکیشن پیش کئے جانے کے بعد 90روز میں عام انتخابات کر انے کی درخواستیں نمٹادی جبکہ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہاہے کہ صدر مملکت کا تحریک عدم اعتماد کے بعد اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی تھا ،
حیران کن طور پر صدر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا انہوں نے کی ،صدر کے پاس تاریخ دینے کا جو اختیار تھا وہ استعمال نہیں کیا گیا، آئین سے انحراف کا آپشن کسی کے پاس نہیں،ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں، انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا،
تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں، صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186 آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے،اب 8 فروری کو انتخابات کرانے پر کسی فریق کو اعتراض نہیں ، وفاقی حکومت 8 فروری 2024 کو انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔
سپریم کورٹ میں ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔کئی مہینوں کے انتظار اور بے یقینی کے بعد الیکشن کمیشن اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا تھا۔جمعہ کو 90 روز میں انتخابات کرانے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے،
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کی ملاقات کی منٹس عدالت کو کچھ دیر میں فراہم کردیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر کیس کو آخر میں ٹیک اپ کر لیتے ہیں، پہلے ہم روٹین کے مقدمات سن لیں، بعد میں انتخابات کیس سنیں گے۔اس موقع پر سماعت میں کچھ دیر کیلئے وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے چیف الیکشن کمشنر کا انتخابات کی تاریخ سے متعلق خط عدالت میں پیش کرنے کیساتھ ساتھ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وفد ملاقات کے منٹس بھی عدالت میں پیش کیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ پر صدر کے دستخط نہیں ہیں، صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کیے، پہلے ان دستاویز پر صدر مملکت کے دستخط کروائیں، پھر آپ کو سنتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے نمائندے بھی موجود ہیں، صدر مملکت کی طرف سے یہاں کوئی نہیں ہے اور آفیشلی دستخط بھی نہیں ہیں، صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے اپنی رضا مندی کا لیٹر الگ سے دیا ہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کی رضا مندی کا خط کہا ہے، ایوان صدر یہاں سے کتنا دور ہے، ہم ایسے نہیں چھوڑیں گے، صدر مملکت کی آفیشلی تصدیق ہونی چاہیے۔ان ریمارکس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے صدر مملکت کے دستخط ہونے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔ایک بار پھر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عام انتخابات 8 فروری کو کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کیا، نوٹی فکیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 217 تحت جاری ہوا ہے، عدالت میں پیش کیے گئے نوٹی فکیشن پر 3 نومبر کی تاریخ درج ہے۔
اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹی فکیشن عدالت میں پڑھ کر سنایا جس کے بعد چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوانا شروع کیا۔حکمنامے میں کہا گیا کہ 2 نومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا، قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کو رٹ نے کہاکہ صدر مملکت کا تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی تھا، تحریک عدم اعتماد کے بعد صدر وزیراعظم کی ہدایت پراسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے، غیرآئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ حیران کن طور پر صدر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا لیکن انہوں نے کی جبکہ صدر کے پاس تاریخ دینے کا جو اختیار تھا وہ استعمال نہیں کیا گیا۔عدالت عظمیٰ کے حکم نامے کے مطابق قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختلاف ہوا، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے حکمنامے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔حکم نامے میں کہا گیا کہ صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے، صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
حکم نامے میں کہاگیاکہ سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں، صدر مملکت اعلیٰ عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔حکمنامے کے مطابق تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں، صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186 آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے، ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں۔حکمنامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر علمداری اختیاری نہیں ،
صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔حکم نامے میں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر پورا ملک تشویش کا شکار ہوا، یہ باتیں کی گئیں کہ ملک میں انتخابات کبھی نہیں ہوں گے، یہ آئین کی سکیم ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف سہولت کار کے طور پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کا کہہ سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ ہر ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرے، صدر مملکت یا الیکشن کمیشن دونوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، انتخابات کے سازگار ماحول پر بہتری ہر شہری کا بنیادی حق ہے، یہ ذمہ داری اْن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ حلف اْٹھا رکھا ہے، چیف الیکشن کمشنر، ممبران اور صدرمملکت حلف لیتے ہیں عوام کو صدر مملکت یا الیکشن کمیشن آئین کی عملداری سے دور نہیں رکھ سکتے۔حکمنامے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں پندرہ سال آئینی عملداری کا سوال آیا، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں، آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا ، قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی، وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا ، اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا، اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا کہ صدر مملکت پر پارلیمنٹ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے۔حکمنامے کے مطابق عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا، عوام پاکستان حقدارہیں کہ ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں، ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا کردار صرف سہولت کاری کا ہے،
انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضامندی سے حل ہو چکا ہے، 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ اِس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ملاقات کرانے کیلئے اٹارنی جنرل نے کردار ادا کیا اور معاملہ حل ہو گیا۔حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کے سیکرٹری کا خط عدالت میں پیش کیا، صدر مملکت کے خط میں کہا گیا کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے،
الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن شیڈول جاری کرے گا، شیڈول دیں تاکہ لوگوں کو پتا تو چلے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ آج سے پندرہ سال قبل 3 نومبر 2007 کو آئین کی خلاف ورزی ہوئی، چاروں صوبوں اور اسلام کی طرف سے ملک کے لا افسران نے نمائندگی کی، تمام لا افسران نے انتخابی تاریخ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، توقع ہے کہ تمام تیاریاں مکمل کرکے الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرے گا۔حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پرکوئی اعتراض نہیں کیا، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے پورے ملک کی تاریخ دے دی،
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا، انتخابات انشااللہ 8 فروری کو ہوں گے، ہم نے انتخابات کے انعقاد کے لیے سب کو پابند کر دیا،کوئی رہ تو نہیں گیا۔حکمنامے کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستگزار منیر احمد ایک مشکوک شخصیت ہیں، ان پر بہت سے سوالات ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پتا ہے ہم نے کیسے عملدرآمد کروانا ہے۔حکمنامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا پر انتخابات کے حوالے سے مایوسی پھیلانے پر اٹارنی جنرل پیمرا کے ذریعے کارروائی کروائیں، اگر میں زندہ رہا تو میں بھی یہ ہی کہوں گا، اگر کسی سے فیصلے نہیں ہو پا رہے تو وہ گھر چلا جائے، اگر میڈیا نے شکوک شبہات پیدا کیے تو وہ بھی آئینی خلاف ورزی کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو شام کو ٹی وی پہ یہ خبر چلے کہ پتہ نہیں کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں، میڈیا میں انتخابات نہ ہونے کی خبریں چلنے سے عوامی رائے متاثر ہوتی ہے، انتخابات کے انعقاد سے متعلق شک و شبات والی منفی خبریں چلیں تو پیمرا کارروائی کے لیے موجود ہے۔حکمنامے کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ انتخابات کی تاریخ ہم نے دی ہے، اظہار رائے سے متعلق آرٹیکل 19 تووجود ہے لیکن آئین پر عمل داری بھی ہر شہری پر فرض ہے، انشاء اللہ ہر کوئی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گا۔اس طرح سپریم کورٹ نے 90 دن انتخابات کیس میں اپنا حکم نامہ لکھواتے ہوئے ساتھ تمام درخواستیں نمٹا دیں۔