اسلام آباد (این این آئی)احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں بری کردیا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار اور دیگر ملزمان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی، نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔
دواران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اسحق ڈار کے خلاف کرپشن کا ثبوت نہیں، کیس مزید نہیں چلایا جاسکتا جس پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے تحریری جواب طلب کر لیا۔جج محمد بشیر نے ریمارکس دئیے کہ نیب پراسیکیوٹر جنرل اس نکتے پر تحریری طور پر لکھ کر دیں، اگر اسحق ڈار سمیت دیگر ملزمان کی بریت پر اعتراض نہیں تو بھی لکھ کر دے دیں، کل کو نیب کہے کہ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔
نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے بیان دیا کہ ہم نے میرٹ پر دلائل دئیے ہیں، عدالت فیصلہ سنا دے، اس پر جج محمد بشیر نے نے ریمارکس دئیے کہ آپ بیان تحریری طور پر لکھ کر دے دیں، ایک بجے فیصلہ سنائیں گے، دریں اثنا عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔بعدازاں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسحق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں بری کردیا۔محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسحق ڈار کے خلاف نیب کو شواہد نہیں ملے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی درخواست پر 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 3 اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔نیب نے اسحق ڈار کے خلاف آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی۔
اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔اسحق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی تھی، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ان کے خلاف ریفرنس میں نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنے نام پر یا ان پر انحصار کرنے والے افراد کے نام پر اثاثے اور مالی فوائد حاصل کر رکھے ہیں،
جن کی مالیت 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار روپے ہے۔ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے اثاثہ معلوم ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔بعد ازاں اس وقت کی حکومت نے اسحق ڈار سے خزانہ کی وزارت واپس لے لی تھی۔عدالت نے 14 نومبر 2017 کو ریفرنس کے حوالے سے اسحق ڈار کے بیٹے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔عدالت نے اسحق ڈار کو مذکورہ کیس میں ٹرائل میں پیش ہونے سے ناکامی پر 11 دسمبر 2017 کو مفرور قرار دے دیا تھا۔