اسلام آباد (این این آئی)نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا ہے کہ بجلی کے بل دینا ہوں گے،فوج میں کوئی فری بجلی استعمال نہیں کر رہا، دفاعی بجٹ سے دے رہے ہیں، واپڈا میں گریڈ 16 تک کچھ ملازمین کو محدود مفت بجلی ضرور ملتی ہے، 48 گھنٹوں میں بجلی کے بِلوں پر ریلیف کا اعلان کردیں گے،
پاکستان میں کوئی بحران نہیں، مشکل حالات ہیں،آئی ایم ایف معاہدے پر عمل کریں گے، ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا،الیکشن وقت پر ہوگا، الیکشن کروانے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، الیکشن تاریخ پر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی احترام کریں گے،لاپتہ افراد کا معاملہ سنجیدہ ہے،
دہشت گردی اور حساس معاملات دیکھ کر نادرا رولز میں ترمیم کی، نادرا کے معاملات بڑی حد تک ملک کی سیکیورٹی سے متعلق ہوتے ہیں،ملک میں مایوسی پھیلانا درست نہیں،زراعت، معدنیات اور آئی ٹی کے شعبے میں بہت صلاحیت ہے، آئی ٹی، میڈیکل، سیاحت اور دفاعی پیداوار پر کام کر رہے ہیں، ملک کے ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے ساتھ میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہے اور زحمت دینے کا مقصد آپ کے حوالے سے پوری قوم سے بات کرکے جو صورت حال ہے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش ہے۔انہوں نے کہاکہ جن چیلنجگ معاشی صورت حال میں یہ نگران حکومت آئین کے تسلسل کیلئے معرض وجود میں آئی ہے اور اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں جو بہترین شخصیات مل سکتی تھیں ان کو یکجا کیا گیا ہے تاکہ بہتر انداز میں مسائل سے نمٹا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں جو گوناگوں مسائل ہیں وہ دونوں معاشی اور سیکیورٹی محاذ پر چیلنجز ہیں، معاشی حوالے سے اگر مسائل کی نشان دہی درست ہوگی تو اقدامات سود مند ہوں گے اور حال ہی میں بجلی کے بلوں کے حوالے سے احتجاج دیکھا اور اس احتجاج کے ارد گرد سول سوسائٹی، میڈیا اور مختلف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تشویش تھی وہ بہت شدید ردعمل آیا،
جس کا ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے کوئی ذاتی ارادے یا منصوبے نہیں ہیں جس کے تحت ہم گفتگو کر رہے ہیں تاہم جو دن حکومت میں گزرے ہیں اس میں ادراک کے عمل سے گزرے ہیں اور بحیثیت نگران وزیراعظم جو چیزیں میرے سامنے آرہی ہیں وہ معاشرے کے دوسرے کردار ہیں وہ بھی ان خیالات یا سرگرمیوں سے گزرتے ہیں یا ہم ایک مخصوص سیاسی، معاشی اور صحافتی کلچر کا شکار ہوگئے ہیں اور اس کلچر میں رہتے ہوئے ہماری گفتگو اسی کے حوالے سے ہے۔