امید اچھی رکھو لیکن تیاری برے حالات کے حساب سے کرو


مُحبت مُجھے اُن جوانوں سے ہے تاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈتمام شرائط پوری کر دی ہیں، معاہدہ ہو جائے تو بسم اللہ، نہیں تو ہمارا گزارا ہو رہا ہے،اسحق ڈار

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) تمام شرائط پوری کر دی ہیں، آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہو جائے تو بسم اللہ، نہیں تو ہمارا گزارا ہو رہا ہے،وفاقی حکومت کے اخراجات کا تخمینہ 14 ہزار 480 ارب روپے ہو جائیگا، بجٹ میں بہتری آئی ہے مالیاتی خسارے میں 300 ارب کا فائدہ ہو گا،پنشن کا تخمینہ 761 ارب روپے سے بڑھ کر 801 ارب روپے ہو جائیگا،

آئندہ مالی سال میں سبسڈی کا تخمینہ 1064 ارب روپے لگایا گیا ہے، بیرونی فنانسنگ میں کمی کی وجہ سے 213 ارب کے نئے ٹیکس لگا رہے ہیں،ہم جاری اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کریں گے، یہ کٹوتی نہ پی ایس ڈی پی میں کی جائے گی نہ اس کا نفاذ تنخواہوں یا پنشن پر ہو گا،وفاقی پنشن کے اخراجات میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، وفاقی ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری اسکیم کو نافذ کرنا پڑے گا، کئی ہائی پروفائل ملازمین ایک سے زیادہ اداروں سے پنشن وصول کر رہے ہیں، بعض افراد تین تین اداروں سے پنشن لے رہے ہیں جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا،

ریٹائرڈ افسر اب 17گریڈ اور اوپر کے گریڈ میں ریٹائر ہوا تو صرف ایک ادارے سے پنشن لے سکے گا، اے ڈی آر سی کے ذریعے عدالتوں میں 3200 ارب روپے کے زیر سماعت ٹیکس مقدمات کے تصفیے کی کوشش کریں گے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 450 ارب روپے سے بڑھا کر 466 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ ہفتہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ 2023-24 پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی حالات کی وجہ سے گزشتہ سال درآمدات پر بعض پابندیاں لگائی گئیں تھیں جس کا بنیادی مقصد وقت پر بیرونی ادائیگیوں کویقینی بنانا تھا کیونکہ اس وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں مگر اس کے باوجود ہم نے خوراک، ادویات اور صنعتوں کے لئے خام مال سمیت کئی شعبوں کو ترجیح بھی دی تھی،

کل شام سٹیٹ بینک آف پاکستان نے درآمدات کے حوالے سے تمام پابندیاں ختم کرنے کا سرکلر جاری کر دیا ہے جو نافذ العمل ہو گیا اور اس سے تاجروں، بزنس مینوں اور صنعتوں کو درپیش مسائل ختم ہو جائیں گے جبکہ زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پارلیمنٹرینز سمیت جو لوگ حج کے لئے جانے سے رہ گئے ہیں، ان کیلئے خصوصی حج پرواز کا انتظام کیا گیا ہے جو اتوار کی صبح روانہ ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ بجٹ تجاویز کے حوالے سے ارکان قومی اسمبلی، ارکان سینیٹ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں، لیڈر آف دی اپوزیشن اور بالخصوص خواتین ارکان اور مختلف چیمبرز کے مشکور ہیں جنہوں نے اچھی اور مفید تجاویز دی ہیں،

ان تجاویز میں موسمیاتی تبدیلی، فوڈ سیکورٹی، شمسی ٹیوب ویلز، آبادی کے تحفظ، فنی مہارت، زراعت، بی آئی ایس پی، ای او بی آئی، کم سے کم اجرت، پسماندہ اور ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی و سماجی منصوبوں کے حوالے سے تجاویز شامل تھیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ ان تجاویز کی روشنی میں مستقبل کا روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سینیٹ اور سینیٹ قائمہ کمیٹی نے جو تجاویز اور سفارشات دی ہیں وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں، اسی طرح قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی اچھی تجاویز دی ہیں جس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔ سینیٹ کی جانب سے مجموعی طور پر 59 تجاویز دی گئی ہیں،

جن میں سے 19 عمومی نوعیت کی تھیں، ان میں سود کا خاتمہ، دفاعی بجٹ میں اضافہ، غیر ضروری اخراجات میں کمی، پیشہ ورانہ تربیت، یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء کی دستیابی، سیاحت کے بجٹ میں اضافہ اور ریڈیو ٹی وی کے حوالے سے تجاویز شامل تھیں، ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ مشکل حالات کے باوجود انہیں شامل کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بعض معزز اراکین نے سپر ٹیکس اور نان فائلرز کے لئے 0.6 فیصد کے ود ہولڈنگ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، سپر ٹیکس گزشتہ سال متعارف کرایا گیا، ارکان کی تجاویز کی روشنی میں اس کے سلیبز بڑھا دیئے گئے ہیں اور اب 300 سے لے کر 500 ملین کی آمدنی پر 10 فیصد سپر ٹیکس برقرار رہے گا، نئے سلیب کے تحت ٹیکس کی شرح کو 6، 8 اور 10 فیصد کے سلیب کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ سپر ٹیکس زیادہ آمدنی والے افراد پر لگایا جاتا ہے، نان فائلرز کے لئے بینکوں سے رقوم نکالنے پر 0.6 فیصد کا ود ہولڈنگ ٹیکس معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے ضروری ہے، اس وقت ٹیکسوں کا بوجھ چند ملین لوگ برداشت کر رہے ہیں اور وقت کی ضرورت ہے کہ جو لوگ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں اور وہ ادا نہیں کر رہے ان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بعض معزز اراکین نے بونس شیئرز پر ٹیکس کی مخالفت کی ہے، کمپنیاں شیئر ہولڈر کو کیش اور بونس کی شکل میں منافع دیتی ہے، نقد کیش پر 15 فیصد ٹیکس عائد تھا، مگر بونس پر ٹیکس لاگو نہیں تھا، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں نقد اور بونس دونوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے، یہ ٹیکس کمپنیاں نہیں بلکہ حصص یافتگان ادا کرتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 98 کے حوالے سے مختلف فورمز سے سفارشات آئی ہیں، جو ونڈ فال گین سے متعلق ہیں اور اس تجویز کا ہدف کوئی خاص شخص یا کمپنی نہیں، اس تجویز کے تحت اگر وفاقی حکومت کو یقین ہو کہ کسی شعبے کو خارجی عوامل سے ونڈ فال گین ہوا ہے تو اس پورے شعبے کو اس میں شامل کیا جائے جو کارپوریٹ شعبہ ہو گا، یہ ٹیکس افراد پر عائد نہیں ہو گا، پاکستان واحد ملک نہیں ہے جہاں پر یہ ٹیکس لاگو ہے، یورپ سمیت کئی ممالک میں یہ ٹیکس پہلے سے لاگو ہے، ایف بی آر کی ایناملی کمیٹی کی سفارشات پر ونڈ فال گین ٹیکس جو پچھلے پانچ سالوں سے لاگو ہونے کی تجویز تھی، کی مدت کو کم کر کے تین سال کر دیا گیا ہے،

اب یہ ٹیکس سال 2020-21 سے لاگو ہو گا، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں میں بار بار یہ بات کہی گئی تھی کہ بینکوں نے فارن ایکسچینج کی مد میں کافی کچھ کمایا ہے تو میں اشارہ دیتا ہوں کہ ونڈ فال گین کے دائرہ کار میں یہ شعبہ بھی آ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی کی بجٹ کے منصوبے کے تحت غیر موثر اور زیادہ بجلی خرچ کرنے والے پنکھوں پر ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی تھی، وزیراعظم نے ایک اجلاس طلب کیا تھا اس میں تمام شراکت دار شریک تھے، پی ایس کیو این اے نے ایسے پنکھوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی تھی، یہ اقدام ریونیو کے مقاصد کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کا خالص مقصد بجلی کی بچت اور صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی تھا،

مختلف مینوفیکچررز کی تجویز پر چھ ماہ کی رعایتی مدت دی گئی ہے اور اب اس ٹیکس کا اطلاق یکم جولائی کی بجائے یکم جنوری 2024 سے ہو گا۔ وزیر خزانہ کہا کہ پاکستان سٹاک ایکس چینج کی طرف سے تجاویز دی گئی ہیں، طویل المدت شیئر ہولڈرز کے لئے قانون میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ اس وقت 3.2 ٹریلین روپے کے ٹیکس سے متعلق مقدمات مختلف سطح پر موجود ہیں، پچھلی دہائی سے ان تنازعات کی فوری حل کے لئے کوششیں ہوئیں مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اے ڈی آر سی کو مزید مضبوط بنایا جائے، تجویز کے تحت ایک کمیٹی قائم ہو گی جس کی سربراہی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج کرے گا،

اس میں ایک محکموں کا نمائندہ ہو گا جبکہ ٹیکس دہندہ بھی اس کمیٹی میں شامل ہو گا، یہ کمیٹی ٹیکسوں سے متعلق مقدمات کو جلد از جلد حل کرنے کیلئے کوششیں کرے گی کیونکہ اس وقت ایسے65ہزار سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں مختلف سطح پر چل رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اے ڈی آر سی کا فیصلہ ایف بی آر پر لازمی لاگو ہو گا جبکہ ٹیکس دہندگان اپیل میں جا سکیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت عام آدمی کی ضروریات اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے خورد و نوش کے لئے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 5 ارب رمضان پیکج جبکہ وزیراعظم پیکج کے تحت سکور کارڈ کے ذریعے 30 ارب دیئے گئے ہیں،

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم بڑھا کر 450 ارب روپے مختص کئے تھے مگر اب ہم نے تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 466 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی مسلح افواج کی کارکردگی پر فخر ہے، دفاع کو ترجیح دینی ہے، سینیٹ نے بھی افواج پاکستان کی تمام ضروریات پوری کرنے کی تجویز دی ہے، ہم افواج پاکستان کی ضروریات کے لئے بروقت رقم جاری کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے 30 ارب مختص کئے ہیں، وفاقی حکومت صوبوں کی مدد سے بہتر پالیسیاں تشکیل دے گی، کم سے کم اجرت بڑھا کر 25 ہزار کر دی گئی ہے، ای او بی آئی کی پنشن 8 ہزار روپے کر دی گئی ہے،

تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں کا تمام فائدہ صارفین کو پہنچایا گیا، آئندہ بھی اس پر عمل کیا جائے گا، بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس اور شہداء فیملی ویلفیئر سکیموں میں سرمایہ کاری کی حد 75 لاکھ مقرر کی تھی، پنشنرز بینیفٹس سکیم میں سرمایہ کاری کی حد بھی 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات میں سے پٹرول اور ہائی سپڈ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کی حد 50 روپے سے بڑھا کر 60 فیصد کی جا رہی ہے، حکومت نے ترسیلات زر کے حوالے سے سہولیات کے لئے 80 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لئے اور غیر ترقیاتی سکیموں کے لئے، ہزاریہ ترقیاتی اہداف کے حصول، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور زراعت کی ترقی کے لئے خاطر خواہ رقوم مختص کی گئی،

زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے 30 ارب نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے 31 ارب روپے مختص کئے گئے، وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کفایت شعاری کا راستہ اختیار کیا گیا، تمام وزارتوں اور ڈویڑنوں نے حکومتی ہدایات پر رواں مالی سال کے دوران اس سلسلے میں تعاون کیا، کفایت شعاری کے تمام اقدامات کو آئندہ مالی سال کے دوران بھی جاری رکھا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ پبلک فنانس مینجمنٹ اصلاحات کے حوالے سے تجویز دی کہ ٹی ایس اے اورٹریڑری رولز کا نفاذ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی پنشن اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، ان میں اصلاحات کی ضرورت ہے، وفاقی ملازمین کیلئے حکومت کو کنٹری بیوٹری فنڈ لاگو کرنا پڑے گا، کئی ملازمین ایک سے زائد پنشن لے رہے ہیں، مجھے ایسے لوگوں کا بھی علم ہے جو تین تین پنشنز لے رہے ہیں،

گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری ملازمین صرف ایک پنشن حاصل کر سکیں گے، ایڈہاک پنشن الائونس کو نیٹ پنشن میں ضم کیا جائے گا، پنشنر، اس کی بیوی یا خاوند اگر دونوں وفات پا جائیں گے تو ان کا قانونی وارث صرف دس سال پنشن وصول کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 1997-98 میں تین ہزار سی سی سے زائد گاڑی درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تھی اسی طرح یہ بھی فیصلہ کیا ہے جو بھی ریٹائرڈ افسر ہوں گے، اگر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نئی ملازمت اختیار کریں گے، تنخواہ یا پنشن میں سے صرف ایک چیز وصول کر سکیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے بھی سوالات کئے جا رہے ہیں،

حکومت نے رواں سال اپریل تک آئی ایم ایف کے تمام نکات بشمول پیشگی اقدامات پر مکمل عملدرآمد کر دیا تھا، بیرونی مالیاتی گیپ کی وجہ سے بورڈ کے سامنے کیس پیش نہیں ہو گا، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پیرس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر سے دو ملاقاتیں ہوئیں اور فیصلہ کیا گیا دونوں اطراف معاملات کو آگے لے کر جانے کے لئے ایک اور بھرپور کوشش کریں گے، اس ضمن میں گزشتہ تین روز میں حکومت کی معاشی ٹیم اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان تفصیلی بات چیت ہوئی ہے، ہم نے خلوص نیت کے ساتھ کوشش کی ہے کہ 9 واں جائزہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہو۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ان مذاکرات میں آنے والے مالی سال میں 215 ارب روپے کے ٹیکس ہم نے تسلیم کئے ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کا بوجھ غریب طبقے پر نہ پڑے، اس طرح مذاکرات میں ہم نے یہ بھی مانا ہے کہ حکومت جاری اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کرے گی، تاہم کٹوتی کا اطلاق ترقیاتی بجٹ، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ پر نہیں ہو گا، آئی ایم ایف کی طرف سے سرکاری ملازمین پر ٹیکس کو دگنا کرنے کی تجویز دی تھی جس کو ہم نے نہیں مانا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مثال عالمگیر سرٹیفکیشن جیسی ہے کیونکہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تمام بڑے مالیاتی ادارے یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی ملک آن ٹریک ہے یا نہیں،

آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا، معاہدے کی تفصیلات اس ایوان اور پوری قوم کی امانت ہیں، جب معاہدہ ہو جائے گا تو ہم اسے وزارت کی ویب سائٹ پر ڈال دیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو امور طے پائے ہیں اس کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ کے اعداد و شمار میں بعض تبدیلیاں لائی گئی ہیں، ایف بی آر کے محاصل کا ہدف 9200 ارب سے بڑھ کر 9415 ارب روپے ہو گیا، صوبوں کا 5276 ارب روپے سے بڑھ کر 5390 ارب روپے ہو گیا، وفاقی حکومت کے اخراجات 14460 ارب روپے سے بڑھ کر 14480 ارب روپے ہو گئے، پنشن کا حجم 761 ارب روپے سے بڑھ کر 801 ارب روپے ہو گا،

سبسڈی کا حجم 1064 ارب روپے جبکہ گرانٹس کا حجم 1405 ارب روپے ہو گا، ان تمام اقدامات کے نتیجہ میں بجٹ کے خسارے میں بہتری آئے گی، مالیاتی خسارہ 300 ارب روپے کم ہو جائے گا، یہ تمام تبدیلیاں بجٹ کی دستاویزات میں شامل کر دی گئی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پوری قوم کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ موجودہ مشکل حالات کی کوئی وجوہات ہیں، سابق حکومت کی ملک دشمن پالیسیوں کی وجہ سے قومی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے، 9 مئی کی ریاست مخالف سرگرمیوں نے جلتی پر تیل ڈالا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے باشعور اور محب وطن عوام کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان حالات کے ذمہ دار کون ہیں، انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ہم اپنا نامکمل ایجنڈا پورا کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری معیشت مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، ہم نے ماضی میں ایسا کر کے دکھایا ہے، 2017ء میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت تھی، ہم وہ مقام دوبارہ حاصل کریں گے، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان گروپ 20 میں شامل ہو جائے گا۔

v>
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

صحت
عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کی تشخیص کیلئے نیا ٹیسٹ متعارف کرادیا...
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 672ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں،ماہرین...
پاکستان میں سال میں ایک لاکھ چھاتی کے سرطان کے کیسز سامنے آئے ہیں...
پاکستان میں امراض قلب میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ...
پاکستان میں سالانہ 75 ہزار سے زائد بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں...
بلوچستان سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ، پولیو کے کیسز کی تعداد 15 ہو گئی...
اکتوبر میں ڈینگی کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری...
اینٹی بائیوٹک ادویات صرف باقاعدہ نسخے پر دستیاب ہونی چاہئیں،طبی ماہرین...

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2024 Mshijazi. All Rights Reserved