اسلام آباد (این این آئی)مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے انتشار کے ایجنڈے اور اوچھے ہتھکنڈوں سے بانی پی ٹی آئی کے لئے اڈیالہ جیل کا دروازہ نہیں کھولا جاسکتا ، 190 ملین پائونڈ القادر ٹرسٹ کیس ، 9مئی کیسز سمیت دیگر کیسز میں یہ مافیاز وکلاء کی معافی کی درخواستوں کے پیچھے چھپ رہے ہیں ، ہماری قیادت نے عدالت کے مکمل عمل سے گزرکر اپنے آپ کو بے گنا ثابت کیا ، آرٹیکل 245 کے بعد انھیں ڈی چوک بڑھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ پیر کو یہاں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں حالیہ احتجاج اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے ایک بار پھر یہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا احتجاج کے نام پر انتشار پھیلانے کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے 24 اور 25 نومبر کو کیے گئے مظاہروں نے عوام، حکومتی اداروں اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ تحریک انصاف نے اسلام آباد میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہو۔ ماضی میں بھی ایسے مظاہرے کیے گئے، لیکن ہمیشہ عوام نے ان کوششوں کو مسترد کر دیا۔ اس بار بھی یہی ہوا، کیونکہ مظاہروں میں عوامی شرکت برائے نام رہی۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے مظاہرین نہ ہونے کے برابر تھے، جبکہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے سرکاری وسائل اور پولیس کو استعمال کر کے احتجاج کو ممکن بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ایسے وقت پر احتجاج کیا گیا جب ملک میں بین الاقوامی وفود موجود تھے، جن میں روسی صدر سمیت دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ احتجاج کے دوران ڈی چوک اور ریڈ زون کا رخ کرنے کی کوششوں نے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ حکومتی بیانات کے مطابق، اس انتشار کے پیچھے مقصد احتجاج کے بجائے افراتفری اور حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو درپیش عدالتی مقدمات میں تاخیری حربے، پیشیوں سے غیر حاضری، اور بار بار معافی کی درخواستیں عوام کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد یہ بات مزید واضح ہو گئی کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کے نظام کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ حکومتی عہدیداروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری اور عوام نے اس احتجاج کو کھل کر مسترد کیا، اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ ایسے مظاہروں پر پابندی لگائی جائے جو عوام اور معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حکومت کی پیشکش کے باوجود مظاہرین نے سنجانی میں احتجاج کرنے کے بجائے ڈی چوک کا رخ کیا، جس سے ان کے اصل مقاصد پر سوال اٹھتے ہیں۔یہ واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ احتجاج کے نام پر انتشار پھیلانا عوامی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت اور عدلیہ کو چاہیے کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں جو ریاستی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مظاہروں سے دور رہیں جو قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔یہ وقت پاکستان کے لیے اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کا ہے، نہ کہ انتشار اور افراتفری کا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قیادت میں سنجیدگی لائیں اور مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائیں۔