انقرہ(این این آئی)ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے شمالی قبرص کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیاہے۔انھوں نے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد شمالی قبرص کی بندرگاہ کا سب سے پہلے دورہ کیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے شمالی قبرص کے رہنما ارسین تاتار سے ملاقات کی جن کی حکومت کو صرف ترکیہ ہی تسلیم کرتا ہے۔
انھوں نے اعلان کیا کہ اگر مذاکرات کی میز پر واپسی ہوتی ہے تو اس کا طریقہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنا ہے۔واضح رہے کہ قبرص 1974 سے دو حصوں میں منقسم ہے جب ترک فوج نے ایک بغاوت کے جواب میں جزیرے کے شمالی حصے پر دھاوا بول دیا تھا۔اس فوجی بغاوت کے ذریعے پورے جزیرے کو یونان کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اقوام متحدہ کے امن دستے خود ساختہ ترک جمہوریہ شمالی قبرص (ٹی آر این سی)کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جنوب سے الگ کرنے والے بفر زون میں گشت کرتے ہیں۔
ترکیہ کی مسئلہ قبرص کے دو ریاستی حلکی تجویز کو یونانی قبرصیوں نے مسترد کر دیا ہے۔یونانی قبرصی جنوب میں اکثریت میں ہیں۔ جمہوریہ قبرص بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق دو علاقوں اور فرقہ وار بنیاد پر دو فیڈریشن کی حمایت کرتا ہے۔اگرچہ صدر طیب ایردوآن نے گذشتہ ماہ ہونے والے انتخابات میں بآسانی کامیابی حاصل کی تھی لیکن وہ شمالی قبرص میں اپنے سیکولر حریف کمال کلیچ داراوغلو سے 15 پوائنٹس سے ہار گئے تھے۔
شمالی قبرص میں قریبا 144,000 رائے دہندگان رجسٹرڈ تھے۔ان میں ترک آباد کار اور فوجی اور ترک قبرصی شامل ہیں جو ترکی کی شہریت رکھتے ہیں۔ صدر ایردوآن کی کارکردگی کو ایک ایسے معاشی بحران کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے جس نے پورے ترکیہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اوراس نے شمالی قبرص کی معیشت کوبھی نقصان پہنچایا ہے ۔اس کی معیشت کا انحصار انقرہ کی مدد پرہے۔لیکن کچھ تجزیہ کاروں نے اس کی وجہ انتخابی مہم کے دوران میں کلیچ دار اوغلو کی پارٹی کے اس علاقے کی حیثیت کے معاملے پر زیادہ سازگار موقف کو بھی قرار دیا ہے۔
ترک صدر نے تاتار کے ساتھ اپنی نموداری کے دوران میں سمجھوتوں کو مسترد کردیا۔انھوں نے کہاکہ ترک قبرصیوں کے منصفانہ مطالبات واضح اور دو ٹوک ہیں۔تاتار نے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہاکہ قبرص میں دو الگ الگ لوگ ہیں۔اس جزیرے کی حیثیت دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک ہے۔ یہ کئی دہائیوں سے بحیرہ روم کے خطے میں تنا کا باعث رہا ہے اور حالیہ برسوں میں خطے میں توانائی کے بڑے ذخائر کی دریافت کی وجہ سے اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اس نے یونان اور یورپی یونین کے باقی حصوں کے ساتھ ترکیہ کے ناخوشگوار تعلقات میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ترکیہ کے شمالی قبرص میں 35,000 سے زیادہ فوجی موجود ہیں۔اس بحران کے حل کے لیے گذشتہ قریبا چھے سال سے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کوئی باضابطہ امن مذاکرات نہیں ہوئے ہیں۔یونانی قبرص کے رہنما نکوس کرسٹوڈولائیڈز،مسئلہ قبرص کے حل میں یورپی یونین کا زیادہ سے زیادہ کردار چاہتے ہیں۔انھوں نے فروری میں یونانی قبرص میں منعقدہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔