اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلہ پر ماہرین نے رائے دی ہے کہ ’فیصلے سے سیاسی بحران کا خدشہ ہے۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔فیصلہ کے حوالے سے ماہر قانون محمود سدوزئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اگر فیصلے پر عمل نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔محمود سدوزئی نے کہا کہ اس فیصلے میں کسی قسم کا ابہام نہیں تھا، یہ سیٹیں پاکستان تحریک انصاف کی تھیں چاہے آپ اس کا نام سنی اتحاد کونسل رکھیں یا آزاد امیدوار اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس فیصلے کی کوئی دوسری تشریح کر ہی نہیں سکتا، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی حکم کو نہ ماننا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کشور دلشاد نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ حاصل ہے، اس لیے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہاکہ اس عدالتی فیصلے سے سیاسی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ابھی نہیں کیا، اس فیصلے کے آنے کے بعد ہی اس پر غور ہوگا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا ترمیمی بل منظور ہوچکا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا ہے۔بیرسٹر اسد رحیم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا اطلاق تمام اداروں پر ہوتا ہے، اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتا تو وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ تفصیلی فیصلہ سے تمام ابہام دور ہو گئے ہیں، اس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔اسد رحیم نے کہا کہ نظر ثانی کی زیادہ تر درخواستوں میں عدالت کے فیصلہ پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور نظرثانی کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے، ایسے بہت کم کیسز ہوتے ہیں جس میں نظرثانی درخواستوں پر عدالت کے فیصلوں کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد کروانا ہر ریاستی ادارے پر فرض ہے اور ہر شہری کو اس کا احترام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ آئینی بحران اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے زمرے میں نہیں لایا جاتا، دو ججز کے اختلاف کے باوجود اکثریتی فیصلے کی قانونی حیثیت ہے جسے ایک مکمل بینچ کے فیصلہ طور پر لیا جائے گا۔بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کی وضاحت نہیں دینی چاہیے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاسی ادارہ نہیں بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے۔