اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر نے درخواست پر سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔
دور ان سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازع نہیں ہوا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازع تھا، رجسڑار ہائی کورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں؟
چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازع کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، کیا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کا ملنا منع ہے؟اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائی کورٹس کو خطوط لکھے، تنازع نہیں ہوا، لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ کہیں تنازع نہیں ہوا، بلوچستان ہائی کورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ کوئی انا کا مسئلہ ہے؟
بعد ازاں الیکشن کے انعقاد اور الیکشن ٹربیونل کے قیام کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی الیکشن کمیشن پر برہم ہوگئے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بات کیوں نہیں کی؟ آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے، ملاقات کرنے میں انا کی کیا بات ہے؟ دونوں ہی آئینی ادارے ہیں، الیکشن کمیشن متنازع ہی کیوں ہوتا ہے؟ آپ لوگ الیکشن کروانے میں ناکام رہے۔اسی کے ساتھ قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوالات اٹھا دئیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں ،آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے، آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن سی نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ٹربیونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر ریمارکس دیے کہ ریٹائرڈ ججزکا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟
ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی ؟ کیا ایمرجنسی تھی ؟ الیکشن ایکٹ توپارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی؟وکیل نے بتایا کہ آرڈیننس کابینہ اور وزیر اعظم کی خواہش تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کی نفی کی گئی ہے۔