اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب مالی سال 25-2024 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا ،وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا ، اگر معاہدہ نہ ہوتا تو ہم اہداف کی بات نہ کررہے ہوتے، ہم بطور ملک بہت مختلف صورتحال سے دوچار ہوتے،رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ میں بڑی صنعتوں کی گروتھ اچھی نہ رہی، زراعت نے اچھا کردار ادا کیا ہے،
لائیواسٹاک بھی بہتر رہی،رواں مالی سال ریونیو کلیکشن میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے،ٹیکس وصولی میں 30فیصد کی نمو دیکھی گئی ہے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی،روپے کی قدر میں چند ماہ میں استحکام دیکھا گیا ہے وجہ نگران حکومت کے دور میں اہم انتظامی اصلاحات کی گئیں، ہنڈی حوالہ اور اسمگلنگ کو روکا گیا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو چیک کیا گیا، ہم ڈیفالٹ ہونے والے تھے مگر اس وقت ہمارے پاس 2ماہ کی درآمدات کے پیسے موجود ہیں جس کی مالیت 9ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے،
ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا معیار بہت شاندار ہے جس کی بدولت ہم اگلے مالی سال کا بہت اچھے اور مضبوط نکتے پر آغاز کریں گے ،مہنگائی کی شرح 48 فیصد سے کم ہوکر 11فیصد تک آگئی ہے، جلد سنگل ڈیجٹ پر بھی آجائیگی، پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے آنا چاہیے، مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو کم کیا ہے، کوئی سرکاری کاروباری ادارہ اسٹریٹیجک نہیں ہوتا، پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے اصول پر آگے بڑھیں گے، ٹیکس کلیکشن کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جارہے ہیں، انسانی مداخلت کم کریں گے، ٹیکس وصولی کر کے دکھانی ہوگی، زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا ستون ہے،
گندم کے معاملات وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں، حکومتی عمل دخل جس شعبے سے ختم ہو وہ اچھا ہے، پاسکو کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں رکھیں گے،پی آئی اے نجکاری سے متعلق نتیجہ جولائی اگست تک دیکھ لیں گے، ہم صرف اسلام آباد ائیرپورٹ کی نجکاری تک نہیں رکیں گے، سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے، اسٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف اسکریپ میں بکے گی، اسٹیل ملز میں لوگ بیٹھے ہیں،گیس بھی استعمال ہو رہی ہے،انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی 50 سال میں کم ترین ہونے کی بات درست ہے، پی ایس ڈی پی میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو فنڈز دیں گے، اب ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں،کم اہمیت کے منصوبوں کو شامل نہیں کرسکتے،ہمارے ملک میں امپورٹڈ مہنگائی کا بہت بڑا اثر ہے، ہم آئندہ مالی سال بھی قرض رول اوور کروائیں گے۔
منگل کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ اکنامک سروے پیش کرتے ہوئے کہا کہ 23-2022 کے مالی سال کا جہاں اختتام ہوا تو اس وقت جی ڈی پی میں 2فیصد سکڑا آیا تھا، اسی سال پاکستانی روپے کی قدر میں 29فیصد کی کمی واقع ہوئی اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم رہ گئے کہ ہم صرف دو ہفتوں کی درآمدات کر سکتے تھے۔انہوںنے کہاکہ اس حکومت میں وزیر خزانہ کی ذمے داریاں سنبھالنے سے قبل نگراں حکومت سے قبل کے دور میں، میں نجی شعبے سے وابستہ تھا اور اس وقت میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف پروگرام میں جانا چاہیے، ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کی جانب سے 9ماہ کا آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا اور آج ہم جہاں کھڑے ہیں اس کی بڑی وجہ وہ معاہدہ ہے، اگر وہ نہ ہوتا تو ہم اہداف کی بات نہ کررہے ہوتے، ہم بطور ملک بہت مختلف صورتحال سے دوچار ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں 30فیصد کی نمو دیکھی گئی ہے جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی، یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ اس مالی سال میں 6ارب ڈالر ہو گا اور اس وقت نئے مالی سال کیلئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ 20کروڑ ڈالر لگایا گیا گیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں گزشتہ چند ماہ میں استحکام دیکھا گیا ہے جس کی دو تین اہم وجوہات ہیں، پہلی تو یہ ہے کہ نگران حکومت کے دور میں اہم انتظامی اصلاحات کی گئیں، ہنڈی حوالہ کو روکا گیا، اسمگلنگ کو روکا گیا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو چیک کیا گیا، یہ انتظامی اقدامات کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک نے ڈھانچے میں بہتری لاتے ہوئے ایکسچینج کمپنیوں کے کیپیٹل میں جو اضافہ درکار تھا اسے بڑھایا، افواہیں پھیلانے والی ایکسچینج کمپنیوں کو باہر کردیا گیا اور جن بینکوں کے پاس ایکسچینج کمپنیاں تھیں،
ان کو کہا گیا کہ آپ مزید بوتھ کھولیں اور جن کے پاس ایکسچینج کمپنیاں نہیں تھیں، ان کو کہا گیا کہ وہ کمپنیاں کھولیں اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس قسم کی سٹے بازی دوبارہ اس ملک میں نہ آئے۔انہوںنے کہاکہ ہم ڈیفالٹ ہونے والے تھے لیکن اس وقت ہمارے پاس 2ماہ کی درآمدات کے پیسے موجود ہیں جس کی مالیت 9ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا معیار بہت شاندار ہے جس کی بدولت ہم اگلے مالی سال کا بہت اچھے اور مضبوط نکتے پر آغاز کریں گے۔انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح 48فیصد کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی تھی تاہم اب مئی میں 11.8فیصد کا عدد مئی میں آیا ہے، میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے، اسی کی وجہ سے بنیادی مہنگائی کے ساتھ ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی گزشتہ روز پالیسی ریٹ میں کمی کی گئی، مانیٹری پالیسی کا اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر ہے اور ان کا اندازہ ہے کہ یہ اگلے مالی سال کے آغاز میں یہ کم ہو کر 10فیصد سے کم ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی آنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم جب یہاں آئی تو ہماری بہت تعمیری اور معنی خیز بات چیت چل ہوئی اور وہ چل رہی ہے، ہمارا جو 9ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ جس کامیابی مکمل ہوا اور ہم نے اس میں جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، اس ڈسپلن کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان جب کوئی بات کرتا ہے تو ہم اس کو پورا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس کو بڑھانا ہے، تونائی کے شعبے میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی گورننس کو ٹھیک کرنا ہے، اخباروں نے اسٹریٹیجک ایس او ایز کی بات کی ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس یا توانائی کے حوالے سے جو پالیسی ہے ہم اس کو نافذ نہیں کرپا رہے اور ہمیں اسے نافذالعمل کرنا ہے، ایف بی آر میں جو لیکیجز ہیں ان کو کم کرنا ہے، یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور ہر کسی کو معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے، اس ملک میں فلاحی کاموں اور خیرات سے اسکول، یونیورسٹی، ہسپتال تو چل سکتے ہیں نہیں ملک نہیں چل سکتے، ملک ٹیکس سے ہی چلے گا، یہ بنیادی اصول ہے۔
اس موقع پر کیپیسٹی پیمنٹ اور بجلی کے یونٹ میں مسلسل اضافے کے حوالے سے سوال پر وزیر مملکت برائے توانائی علی پرویز ملک نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹ بہت بڑا بوجھ ہے جس کی وجہ سے ہم بجلی کی قیمتوں میں وہ ریلیف نہیں دے سکتے جو معیشت اور صنعت کو چلانے کے لیے درکار بنیادی چیز ہے اور اسی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ اور باقی چیزوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جب ہم اصلاحات اور نمو کی طرف جائیں گے تو یہ مسئلہ حل ہونا شروع ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آج ہمارے پاس جو پلانٹس لگے ہیں ان میں اتنی استعداد موجود ہے کہ وہ سب کو بجلی مہیا کر سکتے ہیں لیکن معاشی لوڈشیڈنگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہر فیڈر پر جہاں نقصانات زیادہ ہیں وہاں چند گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے تاکہ گردشی قرضوں پر قابو پایا جا سکے اور ہم جس طرح صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس معاملے میں پیشرفت کررہے ہیں تو وہاں عوام کو ریلیف بھی دیا جا رہا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ مہنگائی کی شرح 48 فیصد سیکم ہوکر 11 فیصد تک آگئی ہے، جلد سنگل ڈیجٹ پر بھی آجائیگی، پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے آنا چاہیے، مہنگائی میں کمی کی وجہ سے ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو کم کیا ہے۔وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کاہ کہ زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا ستون ہے، گندم کے معاملات وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں، اس بار چاول کی بمپر فصل سے ہم نے زرمبادلہ کمایا ہے، زراعت میں مڈل مین کیکردار میں کمی لانی ہے، حکومتی عمل دخل جس شعبے سے ختم ہو وہ اچھا ہے، پاسکو کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں رکھیں گے۔انہوںنے واضح کیا کہ پی آئی اے نجکاری سے متعلق نتیجہ جولائی اگست تک دیکھ لیں گے، ہم صرف اسلام آباد ائیرپورٹ کی نجکاری تک نہیں رکیں گے، سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت نہیں کر سکتے، اسٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف اسکریپ میں بکے گی، اسٹیل ملز میں لوگ بیٹھے ہیں،گیس بھی استعمال ہو رہی ہے۔
انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی 50 سال میں کم ترین ہونے کی بات درست ہے، پی ایس ڈی پی میں اہم نوعیت کے منصوبوں کو فنڈز دیں گے، اب ہمارے ہاتھ بندھ چکے ہیں،کم اہمیت کے منصوبوں کو شامل نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں امپورٹڈ مہنگائی کا بہت بڑا اثر ہے، ہم آئندہ مالی سال بھی قرض رول اوور کروائیں گے۔ این ای سی نے گزشتہ روز کچھ فیصلے واپس لیے ہیں، نگران حکومت میں کچھ اقدامات لیے تھے جن کو واپس لیا گیا۔زراعت کے شعبے کو درپیش مشکلات اور ممکنہ بحران کے حوالے سے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی دو ایسے شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے، ہم ابھی چین سے واپس آئے ہیں اور وہاں ڈیری اور لائف اسٹاک میں بہت زیادہ مواقع ہیں، یہ سب ہمارے ہاتھ میں ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں بجلی چوری کا تخمینہ 500 ارب روپے ہے، بجلی کمپنیاں سرکاری شعبے میں نہیں چل سکتیں۔انہوںنے کہاکہ مہنگائی کی شرح کنٹرول میں مالی اور مانیٹری پالیسی کا تسلسل ضروری ہے۔ کتنی ٹیکس مراعات ختم ہو رہی ہیں، اس بارے میں ابھی نہیں بتائوں گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جس طرح 24-2023 میں پالیسیز چلائی ہیں ان کو جاری رکھنا چاہتے ہیں،اقتصادی پولیسی اور مانیٹری پالیسی برقرار رہے گی، قرضوں کی ادائیگی بھی اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی،قرضوں کی ادائیگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے دورہ چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کا دورہ سی پیک میں نئی روح لایا ہے۔ چین کا دورہ سی پیک کے حوالے سے بہت اہم تھا۔انہوںنے کہاکہ خصوصی اقتصادی زونز سے چینی بزنس پاکستان شفٹ ہوگا،ہماری حکومت کا فوکس بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری ہے۔