کراچی(این این آئی)مالی سال 2024 کے جولائی سے اپریل کے درمیان پیاز کی برآمدات 21 کروڑ ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف وحید احمد نے دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک پیاز کی برآمدات 25 کروڑ ڈالرز تک پہنچ سکتی ہیں۔
انہوں نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ پیاز کی برآمدات میں اضافہ ملک میں ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کا باعث بنا ہے۔8 دسمبر 2023 سے رواں سال اپریل تک بھارتی برآمدات پر پابندی کے بعد پاکستانیوں نے فی کلو پیاز 300 سے 350 روپے تک خریدے تاہم مئی کے پہلے ہفتے میں نئی دہلی کی جانب سے پابندی ہٹانے کے بعد پیاز کی اوسط قیمت 70 سے 150 روپے فی کلو تک گر گئی۔
وحید احمد نے اس بات پر زور دیا کہ قیمتوں میں اضافے کا برآمدی ترسیل سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ پرائس ریگولیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مارکیٹ فورسز کی طرف سے صارفین کا استحصال ہونے سے روکے۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر پیاز کی ہول سیل قیمت 150 روپے ہے تاہم خوردہ فروش 300 روپے وصول کر رہے ہیں تو مقامی قیمتوں میں اضافے کا الزام برآمدات کو ٹھہرانا مناسب نہیں۔
مالی سال 2024 کے پہلے 10 ماہ کے دوران سبزیوں کی برآمدات مجموعی طور پر 10 لاکھ 44 ہزار ٹن رہی، جس سے 37 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 11 لاکھ 70 ہزار ٹن تھی۔اس کا مطلب پیاز سمیت برآمدات کی فی ٹن اوسط قیمت 35 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز تھی جو پچھلے سال 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھی۔ یہ اضافہ ستمبر 2023 سے شروع ہونے والی روپے اور ڈالر کے درمیان مستحکم شرح مبادلہ کی وجہ سے ہے۔
وحید احمد نے دعویٰ کیا کہ مجموعی طور پر برآمدات میں پیاز کا حصہ تقریبا 2 لاکھ سے 2 لاکھ 25 ہزار ٹن ہے جب کہ باقی حصے میں آلو اور دیگر سبزیاں شامل ہیں۔مقامی تاجروں نے ملکی طلب کو پورا کرنے کیلئے ایران اور افغانستان سے پیاز درآمد کرکے صورتحال کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش قیمتوں میں کمی کا باعث نہیں بن سکی تاہم برآمد کنندگان نے عالمی طلب کو پورا کرنے کے لیے بھارتی برآمدات پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
جنوری کے دوسرے ہفتے میں نگراں حکومت نے پیاز کی کم از کم برآمدی قیمت 75 کروڑ ڈالر فی ٹن سے بڑھا کر ایک ہزار 200 ڈالر فی ٹن کر دی، اس فیصلے کے تحت 100 فیصد پیشگی ادائیگی کی ضرورت تھی اور اس کا مقصد کاشتکاروں کے نقصانات کو روکنا اور مقامی مارکیٹ میں قیمتوں کو کم کرنا تھا تاہم یہ فیصلہ صارفین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔وحید احمد نے پیاز کی بہتر اقسام بنانے کے لیے تحقیق کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اس سے قیمتوں کو زیادہ مثر طریقے سے کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پیاز کو لمبے عرصے تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جس سے ان کے خراب ہونے سے پہلے انہیں جلدی فروخت کرنے کا دبا کم ہو جاتا ہے، اگر پاکستانی پیاز بھارتی پیاز کی طرح لمبے عرصے تک چل سکتے ہیں، تو وہ مارکیٹ میں بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں، ممکنہ طور پر قیمتوں کو مستحکم کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلی بار پاکستانی پیاز کئی ممالک میں دستیاب ہے اور حکومت مشرقی منڈیوں میں بھاری کھیپ بھیج رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں معائنہ اور قواعد سے متعلق مسائل کو حل ہوجائیں تو ہماری پیاز کی برآمدات مزید بڑھ سکتی ہیں