اسلام آباد (این این آئی)قومی احتساب بیورو(نیب) نے 19 کروڑ پاؤنڈز کی غیر قانونی منتقلی کے کیس میں سابق وفاقی وزرا اور کابینہ کے 22 اراکین کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا۔نیب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق عمران خان اور دیگر کے خلاف بحیثیت سرکاری عہدیدار ذاتی مفاد کیلئے 19 کروڑ پاؤنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں معاونت کیلئے اختیارات کے غلط استعمال کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ نیب راولپنڈی، نیب آرڈیننس 1999 کے تحت مذکورہ افراد کے خلاف بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹسز کے الزامات پر تحقیقات کر رہا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اس کے پیش نظر ان افراد کی جانب سے جنوری 2018 سے 2023 کے عرصے کے دوران خریدی یا فروخت کی گئی گاڑیوں کی تفصیلات یا مصدقہ دستاویزات کی نقول فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔مطلوبہ دستاویزات نیب راولپنڈی کے دفتر میں جمع کرانی ہوں گی۔
نیب اعلامیے میں جن افراد سے تفصیلات مانگی گئی ہیں ان میں غلام سرور خان، مراد سعید، پرویز خٹک، زبیدہ جلال، حماد اظہر، شفقت محمود، شیریں مزاری، خالد مقبول صدیقی، اعجاز شاہ، علی امین گنڈاپور، فروغ نسیم، خسرو بختیار، اسد عمر، عمر ایوب، محمد میاں سومرو، فواد چوہدری، محبوب سلطان، فیصل واوڈا، علی حیدر زیدی، اعظم سواتی، شیخ رشید اور بابر اعوان شامل ہیں۔
2018 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈز مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا تھا۔این سی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق تصفیے میں برطانیہ کی ایک جائیداد، 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن، شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈ تھی اور تمام رقم ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں آگئیں۔رواں سال جب یہ پتا چلا تھا کہ ملک ریاض نے کراچی کے مضافات میں ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے عوض ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ کمپنی، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے 460 ارب روپے کے سیٹلمنٹ واجبات کی پیشکش قبول کر لی تھی۔
این سی اے کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ کیا تھا کہ برآمد شدہ رقم، سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی میں جائیں گے۔بعد ازاں جب این سی اے نے 3 دسمبر کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی۔بعد میں اس ابہام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں ہے؟
لہٰذا اگر پیسہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس آتا ہے۔گزشتہ برس یکم دسمبر کو بظاہر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں قومی احتساب بیورو نے علی ریاض اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو پیش ہونے کو کہا۔نیب کے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کیلئے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا معاہدہ کیا۔