امید اچھی رکھو لیکن تیاری برے حالات کے حساب سے کرو


مُحبت مُجھے اُن جوانوں سے ہے تاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ماہ رمضان میں ترسیلات زر 2 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں

اسلام آباد (این این آئی) ملک میں ترسیلات زر کی آمد مارچ میں 3 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو اپریل 2022 کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے، جس کی بنیادی وجہ ماہ رمضان کی عمومی ترسیلات ہیں۔مرکزی بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ مارچ میں 2 ارب 95 کروڑ ڈالر جبکہ فروری میں 2 ارب 25 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، جو ماہانہ بنیادوں پر 31.2 فیصد کا اضافہ ہے،

ترسیلات زر مارچ 2023 میں 2 ارب 54 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 16.4 فیصد زائد رہیں۔اسٹیٹ بینک کے مطابق اس سال ترسیلات زر کی آمد اپریل 2022 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے، جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 3 ارب 12 کروڑ ڈالر ارسال کیے تھے۔ مختلف ممالک کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے 7 کروڑ 3 لاکھ ڈالر کی موصول ہوئیں،

جو فروری میں 5 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی، اسی طرح امریکا سے آنے والی رقم فروری کے 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 3 کروڑ 72 لاکھ ڈالر رہی، جبکہ متحدہ عرب امارات سے ترسیلات زر 3 کروڑ 84 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 5 کروڑ 48 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔اسی طرح برطانیہ سے آنے والی رقوم کا حجم 4 کروڑ 61 لاکھ ڈالر، خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے 3 کروڑ 2 لاکھ ڈالر اور یورپی ممالک سے رقوم کا حجم 3 کروڑ 14 لاکھ ڈالر رہا تھا۔

مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی کے نصف میں سست رفتار ترسیلات زر کی آمد کے باجود رواں برس کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران سال بہ سال حجم میں 0.9 فیصد اضافہ ہوا۔رواں مالی سال کے 9 ماہ میں ترسیلات زر کا کل حجم 21 ارب 4 کروڑ ڈالر رہا، گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 20 ارب 84 کروڑ ڈالر کی رقوم موصول ہوئی تھیں۔ماہرین کے مطابق مارچ میں حجم بڑھنے کی وجہ رمضان ہے، کیونکہ اس ماہ میں ترسیلات، صدقات کی رقوم اور خرچ کی وجہ سے زیادہ ہوجاتی ہیں۔

ترسیلات زر میں اضافہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، ایکسچینج ریٹ کے ہموار ہونے اور معاشی شعبے میں مجموعی اعتماد کی بحالی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ترسیلات زر کا موجودہ حجم برآمدات سے ہونے والی آمدنی سے پہلے ہی زیادہ ہے، سے اسٹیٹ بینک کو قرضوں اور سود کی بروقت واپسی میں مدد ملتی ہے، جسے ملکی معیشت کے لیے بنیادی خطرہ تصور کیا جارہا ہے۔پاکستان کو موجودہ مالی سال میں 24 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے، جبکہ اگلے مالی سال کے دوران قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 25 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

اس سال کی ترسیلات زر قرضوں کی ادائیگی کی ضرورت سے زیادہ ہیں، لیکن کثیر تجارتی خسارہ ان رقوم کو کھا جاتا ہے، جس کے بعد لامحالہ مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔قومی ادارہ شماریات کے ڈیٹا کے مطابق سال بہ سال کا تجارتی خسارہ مارچ میں 56.30 فیصد سے بڑھ کر 2 ارب 17 کروڑ ڈالر تک جاپہنچا، البتہ موجودہ مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوارن یہ فرق گزشتہ سال کے 22 ارب 68 کروڑ ڈالر سے گھٹ کر 17 ارب 3 کروڑ ڈالر (24.94 فیصد) رہ گیا ہے۔

v>
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

صحت
سردی میں فالج اور دل کے دورے کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے...
عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کی تشخیص کیلئے نیا ٹیسٹ متعارف کرادیا...
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 672ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں،ماہرین...
پاکستان میں سال میں ایک لاکھ چھاتی کے سرطان کے کیسز سامنے آئے ہیں...
پاکستان میں امراض قلب میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ...
پاکستان میں سالانہ 75 ہزار سے زائد بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں...
بلوچستان سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ، پولیو کے کیسز کی تعداد 15 ہو گئی...
اکتوبر میں ڈینگی کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری...

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Mshijazi. All Rights Reserved