واشنگٹن (این این آئی )سائنسدانوں کی ایک ٹیم چیونٹیوں کے بارے میں اس نئے انکشاف سے حیران رہ گئی کہ وہ اپنے ٹھکانے پر واپسی کا راستہ جانتی ہیں۔ ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ ظاہر ہوا کہ جب وہ کالونی سے باہر خوراک کی تلاش میں جاتی ہیں تو ان خاص نشانیوں کے مدد سے واپسی کا رستہ ڈھونڈ لیتی ہیں جنہیں وہ خود بناتی ہیں۔
امریکن جرنل آف کرنٹ بایولوجی میں شائع ہونے والی یہ جدید تحقیق پچھلے مفروضوں کو کمزور کرتی ہے کہ چیونٹیوں کے گروہ سورج کو اپنی نقل و حرکت کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا فاصلوں کی پیمائش کے لیے اپنے قدموں کو گنتے ہیں یا وہ سونگھنے کی حس پر انحصار کرتے ہیں۔ٹیم نے اپنی تحقیق میں چیونٹیوں کی کیٹگلیفس فورٹس نوع کا مطالعہ کیا، جسے عربی میں صحرا کی چیونٹی کہا جاتا ہے۔
جو تیونس میں سالٹ پینز کے قریب ہموار اور بے نشان سطح پر پھیلی ہوئی ہے۔یہ عام طور پر خوراک کی تلاش میں کالونی سے باہر صحراں میں لمبا فاصلہ طے کرتی ہیں، حالانکہ راستے پر کوئی قدرتی نشان نہیں ہوتا اور ان کے پاں کے نیچے زمین کا درجہ حرارت شدید تر ہوتا ہے، جو بعض اوقات یہ 60 ڈگری سیلسیس تک پہنچ سکتا ہے۔تاہم جس بات نے ہمیشہ سائنسدانوں کا تجسس بڑھایا اور انہیں حیران کیا وہ یہ ہے کہ جب ان چیونٹیوں کو کھانے یا محفوظ کرنے کے لیے کوئی شے ملتی ہے، تو وہ آسانی سے واپس اپنے ٹھکانے پر آپہنچتی ہیں۔
تیونس میں ٹیم نے یہ بھی دیکھا کہ چیونٹیاں اپنی کالونیوں کو اس طرح ڈیزائن کرتی ہیں جو ان کے جغرافیائی محل وقوع کے مطابق ہو۔اس ٹیم کے محقق اور برلن کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان، ڈاکٹر مارکس کنیڈن، ایک ارتقائی ماہر حیاتیات ہیں جو 25 سال سے صحرائی چیونٹیوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ان کے مطابق سالٹ پینز حہاں یہ رہتی ہیں، اس میں کوئی نمایاں خصوصیات نہیں تھیں۔ مگر کالونیوں کے داخلی راستوں پر کچھ انتہائی چھوٹے ٹیلے نمودار ہوئے، ان میں سے کچھ 40 سینٹی میٹر کی اونچائی تک پہنچ گئے۔
سائنسدانوں کی رائے ہے کہ چیونٹیاں خود رستوں پہ یہ نشانات اور ٹیلے رستہ پہچاننے کے لیے بناتی ہیں۔لیکن جب سائنس دانوں نے نشانیوں سے خالی ماحول میں چیونٹیوں کے بنائے ہوئے ٹیلوں کو ہٹا دیا تو کم تعداد میں چیونٹیاں اپنا صحیح راستہ تلاش کر پائیں، اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے نشانات کو دوبارہ بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ایک اور تجربے میں، سائنسدانوں نے کالونی کے داخلی راستوں کے قریب چھوٹے سیاہ سلنڈروں سمیت مصنوعی نشانات لگائے، پھر ان ٹیلوں کو ہٹا دیا جو چیونٹیوں نے بنائے تھے۔
مگر چیونٹیوں نے دوسرے نئے نشانات نہیں بنائے اور مصنوعی نشانات کی مدد سے رستہ ڈھونڈ لیا۔تحقیق میں جرمن انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ماریلیا فریرے لکھتی ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ صحرائی چیونٹیاں ہمارے پہلے کی معلوم حد سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے قابل ہوتی ہیں، یہ روزانہ دو کلومیٹر سے زیادہ سفر طے کرتی ہیں۔تاہم، ہم نے موت کی شرح میں غیر متوقع اضافہ بھی دیکھا، جب کالونی کے باہر خوراک کی تلاش کرنے والی 20 فیصد چیونٹیوں کو طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی راستہ نہیں ملا تو وہ ہماری آنکھوں کے سامنے مر گئیں۔
ہمیں تاریخ سے ایک واقعہ بھی سائنسدانوں کے نظریہ کی حمایت کرتا نظر آتا ہے کہ جب نپولین بونا پارٹ ایک جنگ تقریبا ہار گیا اور فوج اور سازوسامان کے ضیاع کے بعد ایک جگہ بیٹھ کر سوچنے لگا تو ایک چیونٹی کو رینگتے ہوئے دیکھا جسے نپولین نے اپنی انگلی سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور ہر بار خاص سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہی۔نپولین کو چیونٹی سے تحریک ملی ، اس نے اپنی فوج کو دوبارہ جمع کیا اور بغیر رستہ بدلے مخالف فرج پر حملہ کیا اور چیونٹی کی طرح فتح حاصل کی۔