کراچی(این این آئی) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انشورنس کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ صحت اور زراعت کے شعبوں میں اپنی خدمات کو وسعت دیں اور عوام تک رسائی بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں،قومی معیشت میں انشورنس سیکٹر کا حصہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میںبہت کم ہے ، تیزی سے نمو حاصل کرنے کے لئے عوامی سطح پر بہتر تشخص اجاگر اور آگاہی فراہم کی جائے۔
جمعہ کو یہاں گورنر ہائوس میں وفاقی انشورنس محتسب سیکرٹریٹ کے زیر اہتمام ’’انشورنس سیکٹر کی ترقی میں محتسب کا کردار‘‘کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ حکومت اپنے سوشل سیفٹی نیٹ، سرکاری شعبہ میں صحت کی خدمات کی فراہمی، قدرتی آفات اور حادثات کی صورت میں معاوضے کی شکل میں سماجی تحفظ اور امداد فراہم کر رہی ہے تاہم ملک کی پوری آبادی کوفائدہ پہنچانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحت کے اخراجات خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے کے لوگوں کیلئے ایک اہم مسئلہ ہے اور ملک میں ہیلتھ انشورنس کی خدمات کے وسیع امکانات موجود ہیں کیونکہ یہ خدمات نہ صرف موجودہ خلا کو پر کر سکتی ہیں بلکہ ضرورت کے وقت بہت اہمیت کی حامل بھی ہو سکتی ہیں۔زرعی شعبے کے لیے بیمہ خدمات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدرمملکت نے کہا کہ زراعت معیشت کا ایک اور اہم شعبہ ہے جس میں انشورنس کی خدمات اور مصنوعات محدود ہیں جبکہ اس حوالے سے پیش رفت بھی سست روی کا شکار ہے۔
تیزی سے ترقی کرتی ہوئی انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی انشورنس تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جبکہ عوام کی شکایات اور فیڈ بیک کے لیے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ انشورنس کمپنیوں کو عوام میں اپنا بہتر تشخص اجاگر کرنے کے لئے سخت محنت اور بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔صدر نے انشورنس کمپنیوں کے خلاف عوامی شکایات کے بروقت حل میں وفاقی انشورنس محتسب کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے بجائے ثالثی کے ذریعے تنازعات کے حل کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ق
بل ازیں وفاقی انشورنس محتسب ڈاکٹر محمد خاور جمیل نے ایف آئی او سیکرٹریٹ کی کارکردگی اور کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ شکایت کنندگان کو فراہم کردہ مالیاتی ریلیف کا حجم 2019 میں 410 ملین روپے تھا جو بڑھ کر 2022 میں 2.54 ارب روپے ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ تنازعات کے حل کے لیے عدالتی کاروائی کے بجائے ثالثی کا طریقہ اختیار کرنے کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔