مکوآنہ (این این آئی)پاکستان میںترشاوہ پھل رقبہ و پیداوار کے لحاظ سے پھلوں میں پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ ان پھلوں کا 95فیصد حصہ صوبہ پنجاب کے مختلف علاقہ جات سرگودھا، منڈی بہاوالدین، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اوکاڑہ، ساہیوال ، بہاول پور، رحیم یار خان ، لیہ اور ڈیرہ غازی خان پر مشتمل ہے۔
ترشاوہ پھلوں میں سب سے زیادہ کاشت کنو کی ہے اور برآمدی حوالہ سے کنو کی مانگ میںروز بروز مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ ابھرتے ہوئے نئے تجارتی مواقعوں کے تناظر میں ترشاوہ پھلوں کو برداشت کے مرحلہ تک بہتر پیداوار کی صورت میں پہنچانا بہت ضروری ہے تاکہ کنو جیسے اہم پھل کو زیادہ سے زیادہ بر آمد کرکے زرمبادلہ میں قابل قدر اضافہ کیا جا سکے۔
اب جبکہ ترشاوہ پھل اپنی نشو و نما کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں اوراس وقت درجہ حرارت ترشاوہ پھل پیدا کیے جانے والے علاقوں میں 40ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے ۔ لہذا اس نازک موقع پر ترشاوہ پھلوں کو موسموں کے تغیرو تبدل کے مضر اثرات سے بچا نا بہت ضروری ہے۔
ترشاوہ پھل 40ڈگری سینٹی گریڈ تک کا درجہ حرارت برداشت کر لیتے ہیں مگر جب درجہ حرارت 40ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ جائے جیسا کہ مشاہد ہ میں آیا ہے کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں درجہ حرارت 48ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے ایسی صورت میں ترشاوہ پھلوں کے پتے اپنا طویل پھیلائو برقرار نہیں رکھ سکتے اور زردی مائل ہو جاتے ہیںاس طرح پتوں میں سبز پن ختم ہو جاتا ہے اور پھل زردی مائل ہو کر گرنا شروع ہو جاتا ہے۔
نشو و نما کے ابتدائی مراحل میں اُس کے سائز یعنی جسامت میں کمی رہ جاتی ہے جس سے پیداوار کے علاوہ دیگر خصوصیات بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔سورج کی تیز شعائوں کی وجہ سے پھل جھلسا ئو کا شکار ہو جاتا ہے جس کو سن برن کہتے ہیں جس سے پھل کے اس طرف اوپر برائون رنگ کے دھبے نمایا ں ہوجاتے ہیں اور سخت گرمی سے پتوں سے نمی کا اخراج تیزی سے ہوتا ہے جبکہ زمینی نمی بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی ۔
علاوہ ازیںدرجہ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پودوں کو خوراک مہیا کرنے والی جڑیں بری طرح متاثر ہوتی ہیںاور پودوں کو نامناسب خوراک کی فراہمی ان کو انحطاط پذیری کی طرف مائل کر دیتی ہے ۔ پھل سے نمی کے اخراج کی وجہ سے پھل کا سائز بہت چھوٹا رہ جاتا ہے جس سے موسم گرما میں نشو و نما کے مراحل سے گزرتا ہوا پھل اپنے اندر صحیح مقدار میں جوس پیدا نہیں کرسکتا اور مناسب حفاظتی تدابیر اختیار نہ کیے جانے کی صورت میں اس کی پھانکیں خشک ہو جاتی ہیں اور اس طرح پھل کی کوالٹی بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔
اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موسم گرما کی اشدت ٹہنیوں کے سوکا کا باعث بننے کے علاوہ درخت کے تنے کی چھال کے پھٹنے کا بھی موجب بنتی ہے چھال پھٹ جانے کی وجہ سے بعض بیماریوں کے جراثیم باآسانی درختوں پر حملہ آور ہو کر سٹرس گموسس یعنی گوند کے باہر نکلنے والی بیماری اور درختوں کے سوکا کا باعث بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ترشاوہ پھلوں کے انحطاط کی زیادتی موسم گرما میں گذشتہ کئی سالوں سے مشاہدہ میں آرہی ہے۔
ان حالات میں حفاظتی اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس لیے زرعی ماہرین کے مطابق زیادہ گرمی پڑنے پر پودوں کو زیرِ مشاہدہ رکھا جائے اور جونہی ان کے پتے پثر مردگی کی طرف مائل ہوتے ہوئے نظر آئیں توباغبانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پودوں کو فوراََ پانی لگادیں۔پودوں کو پانی لگانے کیلئے زمینی وتر کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے جس کے لیے آسان طریقہ یہ ہے زمین کو کسّی کی مدد سے درخت کے قروں کے پھیلائو سے باہر مٹی کو نکالا جائے اور اس کو مٹھی میں بند کر کے فوراََ زمین پر گرا دیا جائے اگر یہ مٹی اچھی طرح بکھر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زمین میں نمی ختم ہو چکی ہے اور باغات کو پانی کی فوری ضرورت ہے ۔
آجکل پانی دینے کے ا وقات کار کے سلسلہ میں ٹینشومیٹرکا استعمال جو کہ سادہ اور آسان بھی ہے کیا جاسکتا ہے ٹینشومیٹر درخت کے پھیلائو کے نیچے مختلف گہرائیوں یعنی 12انچ،24انچ یا36انچ تک لگائے جا سکتے ہیںاور ان کے اوپر لگا ہوا ایک مخصوص پیمانہ زمینی نمی کے بارے میں درست معلومات فراہم کرتا ہے۔ ٹینشو میٹر کا پیمانہ جب 40تک پہنچ جائے تو باغبان آبپاشی میں لا پرواہی نہ کریں اور پودوں کو فوراََ پانی لگا دیں۔
اگر کسی وجہ سے فوری طور پر پانی میسر نہ ہو اور باغات میں پودوں کی ثپرمردگی مشاہدہ میں آئے تو ضروری ہے کہ درختوں کے اوپر شام کے وقت پانی کا سپرے ضرور کریں اور جونہی نہری یا ٹیوب ویل کا موزوں پانی میسر ہوتوپودوں کوضرور لگا دیں۔ایسے اقدامات کیے جائیں جن کی وجہ سے زمینی نمی کا اخراج کم سے کم ہو اور زمین میں نمی زیادہ دیر تک برقراررکھنے کی صلاحیت پیدا ہو سکے جس کیلئے ضروری ہے کہ باغبان بذریعہ روٹا ویٹر گھاس پھوس وغیرہ اچھی طرح سے زمین میں ملا دیں جس کا یہ فا ئدہ ہوگا کہ زمینی نامیاتی مادہ بھی بڑھتا رہے گا اور اس کے اوپر ایک ایسی تہہ بچھ جائے گی جو کہ زمین کی اوپر والی سطح کو سورج کی بلا واسطہ شعائوں سے محفوظ رکھتے ہوئے عمل تبخیر کی وجہ سے ہونے والے پانی کے ضیاع کو بہت حد تک کم کر دیگی۔
باغبان اگر زمین میں 10سینٹی میٹر موٹائی تک خصوصاََ درختوں کے پھیلائو کے نیچے آنے والی زمین پر گھاس پھوس کی تہہ بچھا دیں جسے ملچنگ کہتے ہیں وہ زمینی درجہ حرارت کو معتدل حالت میں رکھتے ہوئے پانی کے ضیاع کو روکے گی جس کے استعمال سے زمین ٹھنڈی رہے گی اور زمینی نامیاتی مادہ بڑھے گا جس سے پھلدارپودوں پر بہت بہتر اثرات مرتب ہونگے۔
تنے کی چھال کو پھٹنے سے روکنے کیلئے زمین سے ڈیڑھ فٹ اوپر تک چونے اور نیلا تھوتھا کا محلول بنا کر لگا دیا جائے تو پودوںکے تنوں کو سورج کی گرم شعاعوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے تنے کی چھال پھٹنے سے محفوظ رہے گی اور تنے سے گوند نکلنے والی بیماری یعنی سٹرس گموسس سے بھی محفوظ رہے گی۔باغبان اس بات کا خصو صی خیال رکھیں کہ موسم گرما میں بار بار ہل نہ چلائیں اور نہ ہی گہری گوڈی کی جائے ایک دفعہ ہل چلا کر سہاگہ سے وتر کو محفوظ رکھا جائے ۔موسم گرما میں باربار ہل چلانے کی وجہ اس کی جڑیں گرمی کی شدت سے گل سڑ جاتی ہیں اور پودا انحطاط کی طرف مائل ہو جا تا ہے۔باغات کی مغربی اور جنوبی سائیڈ پر ہوا توڑ باڑیں لگائی جائیں تاکہ ترشاوہ پھلوں کے پودوں کو گرم ہوائوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھاجاسکے۔