کراچی (این این آئی) سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) وجیہ الدین نے انتخابات سے قبل نااہلی کیس نمٹائے جانے پر سوالات اٹھا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ نااہلی کیس کی الیکشن سے پہلے ناصرف سنوائی بلکہ فیصلہ ہوگیا، جبکہ بھٹو کیس الیکشن کے بعد ملتوی کر دیا گیا۔ گو دونوں معاملات کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کے امکانات موجود ہیں اور اس پس منظر میں برطانوی ہائی کمشنر کی نوازشریف اور امریکی سفیر کی بلاول بھٹو سے ملاقاتیں، کیا یہی قائد کا پاکستان ہے؟
سپریم کورٹ کے سابق جج اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین احمد نے سپریم کورٹ کے نااہلی کیس فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ آئین کی شق 62 ایف ون کو، جس میں امیدوار پر متتقی، ذی فہم، صادق وامین ہونے کی شرط ہے، ایک ذیلی قانون یعنی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 کے ذریعے تقریباً بے معنی قرار دے دیا گیا ہے، جو فلسفہ قانون کے مطابق صرف آئینی ترمیم سے ممکن تھا۔ انہوں نے کہا کہ دوران سنوائی بار بار سوال ہوا کہ نااہلی تاعمر کیسے ممکن ہے جبکہ دیگر آئینی شقوں میں مدت نااہلی وضاحت سے درج کی گئی ہے۔
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جہاں نااہلی کسی خطا سے جڑی ہو، وہاں مدت کا تعین ممکن تھا اور کیا گیا۔ دوسری طرف، اگر آپ آج صادق، امین و پرہیز گار نہیں، تو آئندہ کل کون سی کسوٹی پر ان صفات سے مزین ہوجائیں گے؟ اسلامی فقہ میں فاسق و فاجر کی گواہی قابل اعتناعی نہیں۔ کیا ایسے شخص کا یہ کہنا کہ وہ 5 سال قبل ایسا رہا ہوگا، اب نہیں، قابل قبول ہوگا؟ خود موجودہ جج صاحبان کورٹ نمر ایک میں آویزاں کئی تصاویر کی طرف اشارہ کرکے کہتے رہے ہیں: ان میں سے کئی آمروں کے سہولت کار رہے تھے۔
وہ تو مر کھپ بھی گئے، موجودہ سوچ کے تحت تو ملامت یا ناپسندیدگی بعد از مرگ تو ہوہی نہیں سکتی۔ متذکرہ کیسوں کی پنچ تشکیل پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ دونوں بنچوں میں کئی سینیئر اور صاف گو جج صاحبان کی کمی محسوس ہوئی۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی آئینی شق 184(3) کی پٹیشن کی 2022ء سے پیروی نہیں کی اور اسے واپس بھی لے لیا۔ اس طرح، نااہلی کیس میں فیصلے کے خلاف جو انٹرا کورٹ اپیل کی جاسکتی تھی وہ بھی نہیں ہوسکے گی۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟