اسلام آباد (این این آئی)نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اسٹیٹ بینک ملازمین کی تنخواہوں کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کردیںجس پر سینیٹرز نے شدید تنقید کا اظہار کیا جبکہ رضاربانی نے کہا ہے کہ 164 ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران باہر ڈالرز میں پنشن لے رہے ہیں۔
سینیٹ اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جہاں وزارت خزانہ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کے اسٹرکچر کے حوالے سے تفصیلات پیش کی گئیں۔سینیٹ کو بتایا گیا کہ مرکزی بینک کے ملازمین کی تعداد ایک ہزار 178 ہے، جن میں افسر گریڈ (او جی) 8 میں 16 ملازمین ہیں، جن کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 39 لاکھ 35 ہزار روپے ماہانہ اور پینشن 11 لاکھ 95 ہزار روپے ہے،
او جی 7 کے 31 ملازمین ہیں، ان کی تنخواہ 25 لاکھ اور پینشن 9 لاکھ 74 ہزار روپے ہے، او جی 6 کے 60 ملازمین ہیں، جن کی تنخواہ 15 لاکھ اور پینشن 8 لاکھ روپے ہے۔بتایا گیا کہ گریڈ 4 کے 266 ملازمین کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ 76 ہزار اور پینشن 6 لاکھ 38 ہزار روپے تک ہے، گریڈ 3 کے 286 ملازمین کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 2 لاکھ 91 ہزار اور پینشن 4 لاکھ 91 ہزار تک ہے،
گریڈ 2 کے 286 ملازمین کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ ایک لاکھ 85 ہزار اور پینشن 4 لاکھ 29 ہزار روپے تک ہے جبکہ گریڈ ون کے 4 ملازمین کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ ایک لاکھ 11 ہزار روپے اور پینشن 2 لاکھ 283 ہزار روپے تک ہے۔سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے مینجمنٹ پوزیشن کے تنخواہوں کے پیکج پر توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ ایک طرف عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کے کہنے پر بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت کی شاہ خرچیاں بڑھ گئی ہیں،
اشرافیہ کی تنخواہ اور مراعات بے حساب بڑھائی جا رہی ہیں۔انہوںنے کہاکہ کہا جاتا ہے پارلیمنٹ پیسہ کھا گئی ہے، پیسہ پارلیمنٹ نے کھایا ہے یا سول بیوروکریسی کھا رہی ہے، 164 ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران جو باہرہیں، ڈالرز میں پیشن لے رہے ہیں، اس کا کیا جواز ہے؟انہوں نے کہا کہ پھر کہا جاتا ہے 18ویں ترمیم، این ایف سی اور صوبے سارے پیسے کھا گئے، 10 سال ہو گئے کوئی این ایف سی نہیں ہوا،
رضا ربانی نے تنبیہ کی کہ اگر وفاق نے شاہ خرچیاں کنٹرول نہیں ہوئیں، بیوروکریسی کی تنخواہ کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو ہم صوبوں سے مطالبہ کریں گے کہ وہ ٹیکس اکٹھا کریں اور پھر صوبے وفاق کو پیسہ دیں گے۔انہوں نے کہاکہ اراکین پارلیمان کی تنخواہ ایک لاکھ 60 ہزار روپے ہے، وزارت خزانہ نے ایم پی ون، ٹو اور تھری کی تنخواہیں بڑھا دی ہیں، ایم پی ون اسکیل کی تنخواہ 8 لاکھ روپے سے 10 لاکھ روپے ماہانہ ہو گئی، مراعات کے ساتھ وہ 11 لاکھ روپے تک ماہانہ لے کر جا رہے ہیں،
ایم پی ٹو کی تنخواہ اب 3 لاکھ 70 ہزار روپے سے بڑھ کر 6 لاکھ روپے ہوگئی ہے اور ایم پی تھری کی ماہانہ تنخواہ 24 لاکھ سے 33 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔شمشاد اختر نے بتایا کہ ایم پی اسکیل اس لیے لائے تھے کہ نجی شعبے سے پیشہ ور افراد کو لائیں جو سرکاری شعبے کی مدد کریں، ان کے پیکجز پر حکومتوں نے نظر ثانی کی،اس وقت توانائی اور فنانس میں ٹیکنکل مسائل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم سے مطالبہ کیا گیا کہ ڈھانچہ جدید بنائیں اس لیے ہم یہ ایم پی اسکیل لائے تھے۔سینیٹر پلوشہ خان نے سوال کیا کہ ایک ایک ملازم کی تنخواہ 40 لاکھ روپے ہے،
انہوں نے کون سا ایسا کام کیا ہے کہ ان کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہے؟وزیر خزانہ شمشاد اختر نے بتایا کہ دنیا بھر میں سینٹرل بینک کا سیلری اسٹرکچر سب سے مختلف ہوتا ہے، بینکنگ سیکٹر کی تنخواہیں بہت بڑھ چکی ہیں،اس لیے ضروری تھا کہ اسٹیٹ بینک کے ملازمین کی تنخواہیں بھی اچھی ہوں۔نگران وزیر خزانہ نے سینیٹ میں اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ جولائی تک چیف جسٹس- وزیر اعظم ڈیم فنڈ میں 11 ارب 46 کروڑ روپے تک جمع ہوچکے تھے۔اس فنڈ پر سرکاری منافع کی صورت میں 6 ارب 29 کروڑ روپے موصول ہو چکے ہیں، اس وقت فنڈ 17 ارب 86 کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں، ابھی تک اکاؤنٹ سے کوئی رقم نہیں نکالی گئی، رقم صرف عدلیہ کے فیصلے پر ہی نکالی جا سکتی ہے۔