امید اچھی رکھو لیکن تیاری برے حالات کے حساب سے کرو


مُحبت مُجھے اُن جوانوں سے ہے تاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد ،پارلیمنٹ کا بنایاگیا قانون برقرار ، فل کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

اسلام آبا د(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد محفوظ فیصلہ سنا تے ہوئے ایکٹ کے خلاف درخواستیں 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے مسترد کردیں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی گئی جسے براہ راست نشر کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں۔

بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے سب سے پہلے سب کا اور پی ٹی وی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس نے ہمارے پاور پراجیکٹ کو کامیاب بنایا۔چیف جسٹس نے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ تھوڑا ٹیکنیکل تھا اسی لیے وقت لگا اور کہا کہ فیصلے کی تفصیلات بعد میں جاری کردی جائیں گی۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ فل کورٹ نے 5-10 کے تناسب سے ایکٹ کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی جبک باقی ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں۔مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 برقرار رہے گا جو اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کے مطابق ہے اور درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ آٹھ اور سات کے تناسب سے اپیل کے حق کے ماضی کے اطلاق کی مخالفت کی گئی اور اب ایکٹ کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ کے مطابق فیصلے میں اپیل کے ماضی سے اطلاق کی چیف جسٹس،جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ نے حمایت کی، ایکٹ کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس ( 184/3) کے کیسز اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے

جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کے حق کی مخالفت کی۔علیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ ہوگیا۔قبل ازیں اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دے چکا ہوں، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا،

پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دئیے جانے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا، آرٹیکل 14، 20، 22 اور 28 میں درج بنیادی حقوق پر عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 1956ء کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی،

آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں رد و بدل کی اجازت ہے، آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ کے رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیار استعمال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ختم ہو گیا، پارلیمان کا آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ کرنے کا مطلب اپنا اختیار سرینڈر کرنا نہیں، آرٹیکل191 میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لاء بنا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے، لا کا لفظ آئین میں 200 بار استعمال ہوا تو کیا اس کا ایک ہی مطلب ہو گا؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون یا تو پارلیمنٹ بناتی ہے یا پھر جج میڈ لاء ہوتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ ایسی قانون سازی نہیں ہو سکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کو سلب کر رہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی کے نکات پر دلائل میں ان سوالات کے جواب دوں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل یہ لفاظ صرف لاء نہیں سبجیکٹ ٹو لاء ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل191 مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں، جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں، آرٹیکل 192 میں لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو انٹری 58 سے نکلتی ہے، صوبائی اسمبلی کیوں یہ قانون سازی نہیں کرسکتی؟ ان معاملات میں مشکلات ہیں، ون سائز فٹس آل نہیں چل سکتا یہاں پر۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ کیوں نہیں کہتے آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے، آئین سازوں نے آئین کو جاندار کتاب کیطور پر بنایا ہے جو وقت پڑنے پر استعمال ہوسکے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل191 میں قانون کا لفظ استعمال کیوں ہوا، اس پر بھی روشنی ڈالیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں قانون کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہی لیا جائے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ صوبائی اسمبلی کا بھی ہو سکتا ہے، کیا صوبے اپنی ہائی کورٹ کے لیے قانون سازی کر سکتے ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ عمومی حالات میں صوبے وفاق سے متعلقہ امور پر قانون سازی نہیں کر سکتے، معاملہ اگر صوبے کے عوام کے حقوق اور ہائی کورٹ کا ہو تو کیا ہو گا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہو گی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اس کے تحت رولز بنیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں لفظ لاء میں 1956ء رولز شامل نہیں ہیں۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز 1980ء لاء ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980ء آرٹیکل191 میں لکھے الفاظ لاء میں نہیں آتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غیر معمولی بات کر رہے ہیں، آپ میری دلیل تو سمجھیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ گیا ہوں لیکن پھر بھی آپ کہہ دیں، ایگزیکٹیو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں،

رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس حساب سے تو سپریم کورٹ 1980ء میں کہے سکتی تھی کہ کوئی قانون نہیں ہے تو ہم رولز نہیں بنا سکتے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے بحث کسی اور بنیاد پر شروع کی تھی، اگر آپ اپنے دلائل ہی جاری رکھتے تو یہ مشکل کھڑی نہ ہوتی، کچھ سوالات کے ہاں یا ناں میں جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ 1956ء کے رولز آئین کی کون سی شق کے مطابق بنے تھے؟جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے آخری رولز 1980ء میں بنے تو مطلب پارلیمنٹ 43 سال سوتی رہی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ممکن ہے سپریم کورٹ میں زیر التواء کیس بڑھیں تو پارلیمنٹ کو کوئی اور قانون بنانا پڑے۔جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ کا ریکارڈ لائے ہیں آپ؟ اس ایکٹ پر بحث ہوئی تھی یا نہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ریکارڈ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

ماسٹر آف روسٹر کا لفظ دنیا میں سب سے پہلے کہاں استعمال ہوا؟چیف جسٹس پاکستان نے ساتھی ججز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان سپریم کورٹ کی دشمن نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ پارلیمان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے، پارلیمان سے منفی چیزیں کیوں منسوب کی جاتی ہیں؟ یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ایک ادارے نے دوسرے کی بہتری کے لیے قانون سازی کی؟ میرے خیال میں پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، 40 سال سے عدالتی پریکٹس کا یہ تو فائدہ ہو کہ چیزوں کو سمجھ سکیں،

اگر فل کورٹ مستقبل کے بارے میں ہر چیز فیصلے میں لکھ دے گی تو آئندہ کیسز متاثر ہوں گے، مستقبل کی بات چھوڑیں اور جو مدعا سامنے ہے اس کو دیکھیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ دنیا میں سب سے پہلے کہاں استعمال ہوا؟ کہاں سے شروع ہوا؟ کیا انگلستان یا امریکا میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال ہوتا ہے؟ ہم نو آبادیاتی ماسٹرز کو کیوں مانتے ہیں؟ کیا اسلام میں ماسٹر آف روسٹر کا کوئی تصور موجود ہے؟ اگر کلونیئل سسٹم پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ ہے؟

اسلام کی رو سے تو ماسٹر تو صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں تو ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال کرتا رہوں گا، آپ جذباتی نہ ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ لفظ اسکول ماسٹر سے آیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ بیٹھی ہوئی ہے وہ اس بارے میں تعین کر لے، آئین میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا جو آپ نے جواب نہیں دیا،

ہم ایک اور آئینی اختیار کے استعمال پر مین میخ نکال رہے ہیں تو سپریم کورٹ کے اختیار استعمال کرنے پر کیا کہیں گے؟ اتنی باریکیوں میں مت جائیں، سپریم کورٹ نے تو کئی بار اپنے اختیار سے تجاوز کیا، تجاوز کی بات آپ نہیں کریں گے کیونکہ آپ کو روز یہاں پیش ہونا ہے، بہت ہو گیا ملک سے کھلواڑ، سپریم کورٹ نے آئین میں کون سے درج اختیارات پر عمل کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے کیسے فیصلہ کیا کہ ایک جج کو مخصوص کیسز سننے سے منع کیا گیا؟ 40 گھنٹوں میں کسی نے سپریم کورٹ کی غلطی پر بات نہیں کی،

سپریم کورٹ کی غلطیوں سے متعلق درخواست تو دائر ہونے کا بھی اختیار نہیں ہے، ملک کو آگے بڑھنا ہے، پہلے انگریز چیف جسٹس تھے جن کا فیصلہ مولوی تمیزالدین کے حق میں تھا، انگلستان کا جج غیرجمہوری اقدام کو غلط اور ہمارا اس کو ٹھیک کہہ رہا ہے، سپریم کورٹ کہتی ہے ہم غلطی کریں تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، کوئی اور ذرا سا بھی غلط کچھ کردے تو سپریم کورٹ نے سرزنش کرنی ہے، آپ اٹارنی جنرل آف پاکستان ہیں، آپ نے قانون نہیں بنایا جو اس کا دفاع کریں گے، 3 یا 4 ججز پر بینچ بنا کر کون سا اختیار استعمال ہوا ہے یہ بتا دیں،

میں تو عابد صاحب سے بھی کہتا ہوں اس بارے میں بات کیوں نہیں کرتے کہ بینچز بناتے وقت کون سا اختیار استعمال ہوا تھا، ایک بینچ نے فیصلہ کیا، دوسرے بینچ نے اسے ختم کر دیا، یہ نہ نظرِ ثانی کا اختیار تھا نہ ہی اپیل کا، معاملہ صرف دائرہ اختیار کا ہے تو اس کیس میں بھی نظرِ ثانی دائر کریں، کسی درخواست گزار نے نہیں کہا کہ عدالت کا خود اختیار سے تجاوز کرنا غلط ہے، اٹارنی جنرل پاکستان رکنِ پارلیمنٹ نہیں ہو سکتا، کب سے خاموشی سے سن رہا ہوں یہ سب کچھ کہنے پر تو مجبور نہ کریں،

اپنا سوال چھوڑ رہا ہوں چاہیں تو جواب دیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ رولز کے تحت اپنا اختیار بڑھا سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اس کا اختیار رولز سے نہیں بڑھایا جا سکتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کوئی مثال دے دیں کہ سپریم کورٹ سے متعلق یہ چیز بدل نہیں سکتی، کون سی آئینی کمانڈ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی سے روک رہی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ اور کتنا وقت لیں گے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر ہم ڈھائی بجے آ کر آپ کو سن لیں گے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کم کر سکتی ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا نیا دائرہ اختیار بنا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان تمام سوالات کے جواب دوں گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ان سوالوں پر سوچ لیجیے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس تمام آئینی اختیارات ہیں اور اس کے لیے آئینی ضوابط مختلف ہیں۔

وقفے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے حقوق ہیں، ہم بار بار بھول جاتے ہیں دنیا مل کر چلتی ہے، ہم ایک دوسرے کے ادارے کو منفی سوچ سے کیوں دیکھتے ہیں، جیو اور جینے دو کا اصول اپنانا ہو گا، اٹارنی جنرل، قانون غلط ہے یہ درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہے، یہ بتائیں قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ وفاق کے چیف لاء آفیسر ہیں، اگر قانون پر عمل نہ کرے، فیڈریشن کا اس قانون پر کیا سرکاری مؤقف ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ اپنے حلف کے پابند ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں ہم قانون پر عمل نہ کریں تو حلف کی خلاف ورزی کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم آ گے جاسکتی تھی، پارلیمنٹ نے عدالت پر اعتماد کیا کہ ہم اپنے معاملات کیسے چلائیں، پارلیمنٹ نے اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی، ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے اختیار سماعت بڑھایا نہیں بلکہ تخلیق کیا، کیا بطور سپریم کورٹ ہم ایسا کرسکتے ہیں جس کا اختیار نہیں تھا، کیا آپ اس لیے ہمیں ہمارے بارے میں نہیں بتائیں گے کیونکہ آپ کو روز سپریم کورٹ آنا پڑتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1973ء کے بعد سے 232 ازخود نوٹس لیے، سپریم کورٹ نے اسٹیل مل نجکاری کالعدم قرار دینے کے بعد کرپشن پر ازخود نوٹس لیا، ازخود نوٹس لیا تو اسٹیل ملز منافع میں تھی، سو موٹو سے آج تک اسٹیل ملز 206 ارب کا نقصان کر چکی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس کارروائی کو سپریم کورٹ کے خلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اسٹیل ملزم کیس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ تمیزالدین کیس، نصرت بھٹو کیس کا لفظ استعمال کر کے آپ سپریم کورٹ کو چارج شیٹ دے رہے ہیں؟ حدیبیہ پیپر سے حدیبیہ پیپر کیس کا لفظ استعمال کر کے آپ سپریم کورٹ کو چارج شیٹ دے رہے ہیں؟ ان تمام فیصلوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کو اپنے اختیار سے تجاوز کر کے قانون سازی کا اختیار درست قرار دے دیں؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہمیں صرف پارلیمنٹ کے قانونی اختیار پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جج سے زیادہ عرصہ وکیل رہا ہوں، ججز کو اچھا لگے یا برا وکیل اپنے مطابق دلائل جاری رکھتا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنر ل کو کہا کہ آپ اپنے دلائل جاری رکھیں سوالات کے جوابات آخر میں دے دیجیے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق پارلیمنٹ کا اختیار آرٹیکل191اور انٹری 58 سے نکلتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم میں تنقید سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے، کوئی اپنی دلیل بنانے کے لیے حقائق بتانا چاہتا ہے تو اسے سننا چاہیے، اٹارنی جنرل صرف ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت کا کون سافیصلہ درست تھا کونسا نہیں اس پر لوگ بات کرتے رہیں گے، آپ سے لیکچر سننے نہیں بیٹھے کہ کونسا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں، ماضی کے فیصلوں کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کو مداخلت کا اختیار مل گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو بات پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک بار اگر سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا جائے تو ایکٹ کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کا دائرہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا اختیار بڑھانے کی پارلیمنٹ پر کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 212 عدالتوں سے متعلق قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے۔ جسٹس شاہد وحید سوال کیا کہ اگر آرٹیکل184 میں پارلیمنٹ کو لگا اپیل دیں تو آرٹیکل 181 میں کیوں نہیں دی گئی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ظاہری طور پر آپ کی دلیل مان لیں تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے کئی اپیلوں کا حق دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہاں سپریم کورٹ کو مزید اختیار دیا جا رہا ہے اگر نہیں پسند آرہا تو کالعدم قرار دے دیجیے گا، ایک جابر نے آئین میں ترمیم کر دی تو کوئی نہیں بولا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کر دی تو سوالات ہو رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 شروع ہی سبجیکٹ ٹو لاء سے ہوتا ہے، قانون سازی پارلیمنٹ کو ہی کرنی ہے تو آرٹیکل191 کے لیے آئینی ترمیم ضروری نہیں ہو گی؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل کو جسٹس ہلالی نے کوزے میں بند کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ بنی تو دیگر عدالتوں سے اختیارات واپس لیے گئے تھے، اعلیٰ عدلیہ کے کچھ اختیارات لے کر شریعت کورٹ کو دیے گئے، اسلام میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا کوئی تصور نہیں ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تو پارلیمنٹ کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ استعمال کر کے قانون سازی کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل185 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا ذکر ہے؟

آرٹیکل185 تو اپیلیٹ دائرہ اختیار ہے اس میں اصل دائرہ اختیار کی اپیل کیسے آسکتی ہے؟ ایک آئینی شق کو ایکٹ کے ذریعے کیسے وسیع کردیا گیا؟ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیسے بڑھاسکتی ہے؟ پارلیمنٹ کون سا دائرہ اختیار بڑھا رہی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپیلیٹ دائرہ اختیار بڑھایا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں منشیات کے مقدمات بھی شریعت کورٹ سنتی تھی، منشیات سے متعلق نیا قانون بنا تو اپیل ہائی کورٹ میں سنی جانے لگی، سادہ قانون سازی کے ذریعے شریعت کورٹ کا اختیار کم کیا گیا،

سپریم کورٹ کا اختیار قانون سازی سے کم نہیں ہوسکتا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ مفروضہ نہیں ہے، میرا سوال مستقبل کی حقیقت پر ہے، اسے مفروضہ کہنا نان سینس ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آپ یہ ہم پر کیوں ڈال رہے ہیں کہ حق دیا جانا چاہیے تھا۔اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جسے چیف جسٹس آف پاکستان نے شام تقریباً ساڑھے چھ بجے سنایا ۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ ریٹائرڈ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔

قانون کو معطل کرتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے تاہم اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔

یاد رہے کہ 10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفقہ رائے سے منظور کیا گیا۔12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں،

جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گااس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے،

سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔اس کے علاوہ کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

v>
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

صحت
سردی میں فالج اور دل کے دورے کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے...
عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کی تشخیص کیلئے نیا ٹیسٹ متعارف کرادیا...
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 672ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں،ماہرین...
پاکستان میں سال میں ایک لاکھ چھاتی کے سرطان کے کیسز سامنے آئے ہیں...
پاکستان میں امراض قلب میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ...
پاکستان میں سالانہ 75 ہزار سے زائد بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں...
بلوچستان سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ، پولیو کے کیسز کی تعداد 15 ہو گئی...
اکتوبر میں ڈینگی کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری...

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Mshijazi. All Rights Reserved