اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے،مقدمہ کو مزید نہیں لٹکانا چاہتے، خواجہ حارث بتائیں نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟۔
نیب ترمیم کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کیا کہ آج آپ اتنی دور سے پیش ہوئے ہیں، جس پر مخدوم علی خان نے کاہ کہ گزشتہ روز کے حالات کے پیش نظر مجھے لگا کہ عدالت پہنچنا مشکل ہو گا، آج کل تو سوشل میڈیا بھی نہیں کہ معلومات مل سکیں۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے کہا کہ دھیان سے بات کریں، عدالت میں جو بات کہیں گے وہ سوشل میڈیا پر گڈ ٹو سی یو کی طرح سیاق و سباق کے بغیر پیش کی جائیگی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کی چھیالیسویں سماعت ہے اور بینچ چاہتا ہے اس کیس کو سمیٹا جائے۔سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان اور عمران خان کے وکیل کو دلائل کی سمری جمع کرانے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جوابات کے بعد فیصلہ کریں گے کیس کی مزید سماعت کی ضرورت ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ تحریری مواد دیکھنے کے بعد ضرورت ہوئی تو مزید سماعت کریں گے، اگر فراہم کردہ مواد پر عدالت کسی نتیجے پر پہنچی تو فریقین کو آگاہ کر دیں گے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کی 46 سماعتیں ہوچکی ہیں، اب تک خواجہ حارث 26 اور مخدوم علی خان نے 19 سماعتوں پر دلائل دئیے ہیں۔انہوںنے کہاکہ مقدمہ کو مزید نہیں لٹکانا چاہتے کیونکہ عدالتی چھٹیوں میں شاید بینچ بیک وقت یہاں دستیاب نہ ہو، نیب قانون میں بہت سی چیزیں درست ہیں، کچھ غلطیاں ہیں جن پر فیصلہ دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب، نیب ترامیم دیکھ کر بتائیں ان میں غلطی کیا ہے، یہ بھی بتائیں کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ خود سے یہ طے نہیں کر سکتے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بنیادی حقوق متاثر ہو گئے۔جسٹس اعجازالااحسن نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت دی کہ اپنے جواب میں مخدوم علی خان کے اعتراضات کا جواب بھی شامل کیجیے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے نیب قانون میں گزشتہ روز تیسری ترمیم کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بھی تو ہمارا امتحان لیتی جا رہی ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت نے نیب قانون میں ریفرنسز واپس ہو کر متعلقہ فورم سے رجوع کرنے پر ترمیم کی ہے۔وفاقی حکومت کے وکیل نے عمران خان کے نیب ترامیم سے مستفید ہونے کا نکتہ عدالت میں اٹھا دیا۔مخدوم علی خان نے بتایا کہ پچھلے ہفتے ایک معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، آئینی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص نے اس قانون سے فائدہ حاصل کیا جس کو چیلنج کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان چاہتے ہیں جس قانون سے فائدہ وہ حاصل کر چکے اس سے کوئی اور مستفید نا ہو، تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ایک وزیراعظم نے عہدے سے فارغ ہونے پر اپنے ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کیا۔مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ آئین اجازت نہیں دیتا کہ قانون سے ناقد شخص اسی سے فائدہ لے، درخواست گزار نہیں بتا سکے کہ نیب قانون براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے منافی ہے، نیب ترامیم کے خلاف کیس قیاس آرائیوں پر مبنی لمبی مشق ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ روز جوائنٹ سیشن میں نیب ترامیم منظور کیں، صدر مملکت نے نیب ترامیم بغیر دستخط کے واپس کیں اور ان کو پارلیمنٹ نے دوبارہ منظور کیا۔مخدوم علی خان نے سوال اٹھایا کہ عمران خان نے نیب قانون پہلے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ نکتہ پہلے بھی بہترین انداز میں اٹھایا تھا کہ درخواست ٹھوس بنیادوں پر مبنی نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت 184 تھری کے مقدمات میں کسی بھی قانون پر جوڈیشل ریویو کر سکتی ہے، ساری دنیا میں عدالتیں قوانین کو کالعدم قرار دیتی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ تیسری ترمیم سے متاثر ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کر لیں، عدالتی فیصلے میں موجود ہے جس کے تحت عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کہتی رہی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کی ہدایات دینے کا مقصد قانون کو آسان بنانا تھا تا کہ بہتری ہو۔بعد ازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔خیال رہے کہ 12 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف دائر درخواست 16 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔
خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔