اسلام آباد(این این آئی)سینیٹ نے وزیر دفاع خواجہ آصف کا پیش کیا گیا آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا گیا، بل کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔آرمی ایکٹ میں تجویز کردہ نئی ترامیم کے مطابق صدر مملکت پاک فوج اور اس کے ذخائر کی نشوونما کریں گے جبکہ فوج پر کمانڈ اینڈ کنٹرول وفاقی حکومت کا اختیار ہوگا،
آرمی چیف انتظامی معاملات دیکھیں گے۔صدر مملکت پاک فوج میں کمیشن دیں گے مگر کسی بھی غیر ملکی شہریت رکھنے والے، دہری شہریت رکھنے والے یا18سال سے کم عمر شہری کو پاک فوج میں کمیشن نہیں ملے گا۔ایکٹ کی شق 18میں ترمیم کے مطابق اب وفاقی حکومت ضرورت کے مطابق یا غیر معمولی صورتحال میں یا جنگ کی صورتحال میں آرمی چیف کی مشاورت سے کسی بھی فوجی افسر کو 60سال کی عمر تک ملازمت پر برقرار رکھ سکتی ہے۔
آرمی ایکٹ کی شق 176میں ترمیم کے ذریعے اب کسی بھی آرمی افسر بشمول آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے پر تعیناتی،دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے الفاظ کے ساتھ اب ری ٹینشن یعنی عہدے پر برقرار رکھنے کا لفظ بھی شامل کر دیا گیا ہے جبکہ آرمی چیف اب اس نئے ایکٹ کے مطابق قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کی ہدایات جاری کر سکے گا۔شق 176سی میں ترمیم کے مطابق اب آرمی چیف اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں اپنے ماتحت کسی بھی افسر کو تفویض کر سکے گا۔
آرمی ایکٹ سیکشن 26اے میں ایک نئے سیکشن کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات جو پاکستان اور افواج کی سیکیورٹی اور مفاد سے متعلق ہو افشا کرے گا اسے پانچ سال قید با مشقت تک کی سزا ہو سکے گی،البتہ آرمی چیف یا با اختیار افسر کی جانب سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات دینے پر سزا نہیں ہوگی،راز افشا کرنے والے شخص کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
شق 26بی کے تحت ملازمت سے ریٹائرمنٹ، برطرفی، استعفیٰ پر کوئی بھی فوجی افسر دو سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکے گا جبکہ حساس اداروں میں کام کرنے والے افسران پانچ سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے، خلاف ورزی پر دو سال تک قید با مشقت کی سزا ہوگی۔آرمی ایکٹ میں پہلی بار مفادات کے ٹکرا کی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک کوئی فوجی افسر آرمی چیف یا مجاز افسر کی اجازت کے بغیر کسی ایسے ادارے کے ساتھ ملازمت یا مشاورت نہیں کرے گا جس کا پاک فوج کی سرگرمیوں کے ساتھ مفادات کا ٹکرا ہو،
خلاف ورزی کی سزا دو سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔شق 55بی کے تحت الیکٹرانک کرائم کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی حاضر سروس یا سابق فوجی الیکڑانک، ڈیجیٹل،سوشل میڈیا پر ایسی بات نہیں کرے گا جس کا مقصد پاک فوج کواسکینڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا ہو، ایسا کرنے پر اس کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی جبکہ پیکا قوانین کے تحت سزا ہو گی۔شق 55سی کے تحت پاک فوج کو بدنام کرنے اس کے خلاف نفرت ابھارنے یا فوج کو نیچا دکھانے پر دو سال تک سزا ور جرمانہ یا دونوں ہو سکیں گے۔آرمی ایکٹ میں ان ترامیم پر سوال نہیں اٹھایا جا سکے گا اور ان قوانین کے کسی بھی دوسرے قوانین پر اوور رائیڈنگ اثرات ہوں گے۔بل کے مطابق پاک فوج وفاقی یا صوبائی حکومت کی منظوری سے قومی ترقی کی سرگرمیاں شروع کر سکتی ہے، پاک فوج وفاقی یا صوبائی حکومت کی منظوری سے قومی یا اسٹریٹیجک مفادات کی سرگرمیاں شروع کر سکتی ہے۔