امید اچھی رکھو لیکن تیاری برے حالات کے حساب سے کرو


مُحبت مُجھے اُن جوانوں سے ہے تاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

شہریوں کے ملٹری ٹرائل کا کیس،9 مئی کے واقعات میں سنگینی کا پہلو موجود ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات میں سنگینی کا پہلو موجود ہے، میری یادداشت میں ماضی کا ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں جب ملک بھر میں اداروں پر حملہ ہوا ہو۔

بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو وفاق کے مؤقف سے آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی کو حساس تنصیبات پر حملے تقریباً ایک ہی وقت پر ہوئے، کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ 5 بج کر 40 منٹ پر ہوا جبکہ دوپہر 3 بجے سے لے کر شام 7 بجے کے درمیان ملک بھر کی حساس فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ پاک فضائیہ کی میانوالی بیس پر جہاں بیرونی دیوار گرائی گئی وہاں معراجِ طیارے کھڑے تھے، پی اے ایف بیس میں جہازوں کے استعمال کیلئے فیول بھی موجود تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہنگامہ آرائی سے متعلق تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح لوگ جی ایچ کیو میں داخل ہوئے، حمزہ کیمپ آئی ایس آئی آفس راولپنڈی پر بلوائیوں نے حملہ کیا، سگنل میس اور اے ایف آئی سی پر بھی حملہ کیا گیا، چکلالہ راولپنڈی میں بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔

منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ حملوں کے لیے پیٹرول بم استعمال کیے گیے، لاہور میں سی ایس ڈی کو جلایا گیا، کور کمانڈر آفس کو بھی نقصان پہنچایا گیا جبکہ کور کمانڈر ہاؤس کے احاطے میں قائم مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔دورانِ دلائل انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے کور کمانڈر لاہور کی وردی چرا کر پہنچنے والے حملہ آور کی تصویر بھی پیش کی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوج ہتھیار چلانے میں مکمل تربیت یافتہ ہوتی ہے، تاہم 9 مئی کے واقعے پر فوج نے لچک کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر میں حملے میں ملوث افراد مسلح تھے، موٹروے پر ٹول پلازہ سوات کو جلایا گیا مگر اس کارروائی کی ویڈیو دستیاب نہیں، تیمرگرہ میں اسکول کو نقصان پہنچایا گیا، پنجاب رجمنٹ مردان سینٹر، بلوچستان رجمنٹ ایبٹ آباد پر حملہ کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ لاہور اور پشاور کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا تاہم سندھ اور بلوچستان میں 9 مئی کو صورتحال قابو میں تھی۔منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فوج نے مزاحمت اس لیے نہیں کی کہ فوجی افسران پولیس کی طرح مظاہرین سے لڑنے کیلئے ٹرینڈ نہیں ہوتے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی افسران کو اس طرح کے جتھوں کو منتشر کرنا نہیں سکھایا جاتا، کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو، فضائی اڈوں سمیت کئی حساس تنصیبات پر ایک ساتھ منظم انداز میں حملہ کیا گیا۔نقصانات کے تخمینے سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں مجموعی طور پر 2 ارب 50 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، جس میں فوجی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ ڈیڑھ ارب روپے ہے جبکہ 149 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان واقعات کے دوران 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تعداد 184 تھی، پنجاب میں 62 جگہوں پر حملہ کیا گیا جس میں 52 افراد زخمی ہوئے۔ا ٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویرعدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون اور حمزہ کیمپ آئی ایس آئی آفس راولپنڈی پر بلوائیوں نے حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی، جی ایچ کیو میں فوجی مجسمے کو توڑا گیا، جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی ہسٹری میوزیم پر بھی حملہ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پشاور میں ہائی کورٹ کے قریب ایمبولینسز جلائی گئیں، بنوں کیمپ پر بھی حملہ کیا گیا۔منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا سامنا رہا تاہم ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا، 9 مئی کے واقعات اچانک نہیں منظم طریقے سے کیے گے۔اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ان وجوہات کی بنا پر فل کورٹ تشکیل دے کر مقدمے کی سماعت کرے۔

اٹارنی جنرل نے بتایاکہ لیاقت حسین کیس اور 21 ویں آئینی ترمیم میں بھی جرم سویلین نوعیت کا تھا۔ جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ وہاں صورتحال باکل مختلف تھی، آئینی ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔چیف جسٹس نے کہ اکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ایسا پہلی بار ہوا کہ عوام نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے، درخواست گزاروں نے جو نکات اٹھائے ان پر بھی بات کریں، سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 7 اور 9 کے تحت ملٹری عدالتوں میں سزا 2 سال قید ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہی سزا زیادہ سے زیادہ بنتی ہے؟ اٹاربی جنرل نے بتایاکہ جی یہی سزا بنتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو عام عدالتوں میں سزا اس سے زیادہ بنتی ہے، سول قوانین کے تحت زیادہ سنگین سزائیں موجود ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے جو مواد ریکارڈ پر رکھا ہے وہ تفتیش ہی بنیاد بنے گا، آپ نے جو ڈیٹا پیش کیا اس کے حقائق، الزامات کی نوعیت بہت سنگین ہے، کسی ممنوعہ علاقے میں داخل ہونا بھی جرم ہے، ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے پر سکیشن 3 لاگو ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ سیکشن 3 کے معاملے پر حکومت سے ہدایت لے کرعدالت کو آگاہ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ٹرائل سے پہلے شواہد کی سمری پیش کی ہے، ٹراٹل کے لیے اگرعدالت بہتر تجویز دے تو اس پر عمل کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یقینی طور پر عدالت غیر آئینی چیز کی اجازت نہیں دے گی، آپ شفاف ٹرائل اور پراسیس کی یقین دہانی کروائیں توپھر آئینی سوال پر آتے ہیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ فیصلوں میں ملٹری کورٹس صرف اتنا ہی لکھتی ہیں کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں تفصیلی وجوہات ہوں گی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات مین سنگینی کا پہلو موجود ہے، میری یاداشت میں ماضی کا ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں جب ملک بھر میں اداروں پر حملہ ہوا ہو۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالتی حکم ہو تو وہ وجوہات بھی فوجی عدالتوں کے فیصلے میں شامل ہوں گی، ایک ایف آئی آر میں سیکشن 302 بھی موجود تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا یہ ہم نے نہیں دیکھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں اپیل کا حق دینا ہے تو قانون سازی سے دیں، آپ یہ چیز عدالت سے کیوں مانگ رہے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ٹرائل کے بعد اپیل کاحق ہے، جاسوسی کے الزام میں گرفتار کلبھوشن کو بھی ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون سازی کے ذریعے وہ ایک ایلین کو حق دیا گیا تھا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وہ ایلین ہے یا انڈین؟ لفظ ایلین کی تو کچھ اور تشریحات ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آئین کے تحت بنی کسی عدالت میں اپیل کا حق ملے گا یا نہیں، ہم آپ کو ایک تجویز دیتے ہیں آپ ہدایات لے کر آئیں، آپ ہدایات لے کر بتائیں اپیل کاحق ملنا ہے یا نہیں، ساتھ ہی استفسار کیا کہ آپ کب تک ہدایات لے کر بتا سکتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے پرسوں تک کا وقت دے دیں، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2 دن کی مہلت دیتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔

v>
سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقبول خبریں


دلچسپ و عجیب

صحت
سردی میں فالج اور دل کے دورے کا خطرہ کیوں بڑھ جاتا ہے...
عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کی تشخیص کیلئے نیا ٹیسٹ متعارف کرادیا...
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 672ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں،ماہرین...
پاکستان میں سال میں ایک لاکھ چھاتی کے سرطان کے کیسز سامنے آئے ہیں...
پاکستان میں امراض قلب میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ...
پاکستان میں سالانہ 75 ہزار سے زائد بچے دل کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں...
بلوچستان سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ، پولیو کے کیسز کی تعداد 15 ہو گئی...
اکتوبر میں ڈینگی کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری...

تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔
Copyright © 2025 Mshijazi. All Rights Reserved