بیجنگ(این این آئی)امریکی رہنماؤں نے مالی سال 2025کیلئے نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ پر دستخط کردیئے۔چینی میڈیاکی رپورٹ کے مطابق 895ارب ڈالر کا فوجی خرچ ایک ریکارڈ ہے اور یہ واشنگٹن کے فوجی اخراجات کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ یہ فوجی اخراجات بالکل معقول ہیں ، بل میں درجنوں بار چین کا ذکر کیا گیا ہے اور کئی جگہوں پر چین کے خطرے کے نام نہاد مفروضے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر امور تائیوان پر غیر ذمہ دارانہ بیانات اور فوجی حمایت کو بڑھاکر تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کو سنگین غلط پیغام دیاگیا۔ گزشتہ ماہ میں امریکہ نے تائیوان کو 385ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کی منظوری دی، 571.3ملین ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا اور پھر 295ملین ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی۔ امریکہ نے تائیوان کو مسلح کرنے کی اپنی کوششیں تیز کیوں کر دی ہیں؟ چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف تائیوان اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ ریسرچ فیلو لیو کھوانگ یو نے کہا کہ امریکی حکومت کی جانب سے تائیوان کو اسلحے کی فروخت یا امداد کے حالیہ سلسلے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک طرف امریکہ متعلقہ مفاداتی گروہوں کے مفادات کے تحفظ اور اسلحے کی فروخت میں اضافے کے لیے امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے دباؤ کا جواب دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ اس سے ایک بار پھر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تائیوان طویل عرصے سے امریکہ کیلئے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو چلاتے رہنے کا طریقہ اور فوجی اخراجات میں سالانہ اضافے کا بہانہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف امریکہ ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جس سے اگلی امریکی انتظامیہ کیلئے چین-امریکہ تعلقات سے نمٹنے میں مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ جہاں تک یہ خیال ہے کہ ان تمام اقدامات سے تائیوان کے عوام کو مزید خطرناک صورتحال میں دھکیلا جا رہا ہے یا نہیں ،تو یہ فکر امریکی حکومت کے زیر غور بالکل بھی نہیں ہے۔