اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے 6 وفاقی وزارتوں سے متعلق فیصلہ کرلیا ہے، اب عمل درآمد کرنا ہے،آئی ایف کے پاس جانے کا مقصد معاشی استحکام اور جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا،
اس پروگرام کے آنے کے بعد ہم معاشی استحکام کی طرف تیزی سے بڑھیں گے،آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کامیابی سے مکمل کرلیا، یہ سب وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشوں سے ہوا ہے، اس میں سابق نگران حکومت کا بھی مثبت کردار تھا، اب معاشی استحکام آئے گا، ایف بی آر میں ٹیکس سسٹم میں انسانی عمل دخل ختم کرنا ہے،
ٹیکس وصولی کیلئے انسانی حقوق کی پاس داری ضروری ہے، ہمارے پاس ہر طرح کا ڈیٹا ہے جسے ہم زیر استعمال لائیں گے، اس وقت صرف 14 فیصد ریٹلرز سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، نان رجسٹرڈ لوگوں کی یوٹیلیٹی سروسز بلاک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے،آڈٹ کرنا ایف بی آر کا کام نہیں، اس حوالے سے ہم 2000 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھرتی کر رہے ہیں، ٹیکس کلیکٹرز کا بھی کڑا احتساب ہو گا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف دن رات پاکستان کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں اور حکومتی پالیسوں کے نتیجیمیں مہنگائی کم ہوکر سنگل ڈیجٹ میں آگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ 29 فیصد بڑھی ہے، آئی ٹی شعبے کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستانی معیشت میں استحکام آیا ہے، میکرو اکنامک استحکام منزل نہیں بلکہ راستہ ہے، ہماری اسٹاک مارکیٹ بھی بہترین پرفارم کررہی ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد معیشت کی مضبوطی کے حوالے سے بڑی کامیابی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نجی شعبے کو ملک کو لیڈ کرنا ہوگا، افراط زر میں کمی سے پالیسی ریٹ 4.5 فیصد کم ہوئی ہے، ملک کے معاشی ایجنڈے کے لیے بہترین ذہن چاہئیں، ملک کی بہتری کے لیے بیرون ملک سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں اصلاحات لارہے ہیں، ٹیکس محصولات بڑھانا ناگزیر ہے، ہم رائٹ سائزنگ پر عمل کررہے ہیں، 6 وزارتیں ختم کرنے کے فیصلے پر اب عملدرآمد ہوگا۔انہوںنے کہاکہ 2 وزارتوں کو ضم کیا جارہا ہے، مختلف وزارتوں میں ڈیڑھ لاکھ پوسٹوں کو ختم کیا جارہا ہے جب کہ سول سروس ایکٹ میں ترمیم ہوگی۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں فائلرز کی تعداد دگنی ہوگئی، رواں سال 7 لاکھ 23 ہزار افراد ٹیکس نیٹ میں آئے، اس وقت ملک میں 32 لاکھ فائلرز ہیں، ملک میں فائلرز کی تعداد 16 لاکھ سے بڑھ کر 32 لاکھ ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نان فائلرز بیشتر چیزیں نہیں کرسکیں گے، گاڑیاں، پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے، اس کے علاوہ کرنٹ بینک اکاؤنٹ اور رقم نکالنے کے معاملات میں ان کو بہت مسائل کا سامنا ہوگا جب کہ ہم دیکھیں گے فائلرز نے کیا ظاہر کیا اور اصل اثاثے کیا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے 3 لاکھ مینوفیکچرز ہیں جس میں سے 14 فیصد سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں، 3 لاکھ ہول سیلرز ہیں جس میں 25 فیصد سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں، مینوفیکچرز کو صرف رجسٹرڈ ہول سیلرز کو فروخت کی اجازت ہوگی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جائے گا، ہماری کوشش ہو گی کہ ٹیکس جمع کرنے والوں اور کاروباری شخصیات کے درمیان کم سے کم مداخلت ہو، اس میں آر ایف آئی ڈی، ویڈیو اینالیٹکس یہ ساری چیزیں لے کر آئیں گے تاکہ اس میں انسانی مداخلت کم ہو۔انہوں نے کہا کہ انسداد اسمگلنگ کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا 750 ارب کا ٹیکس امپیکٹ ہے، برآمدکنندگان کے لیے نیا نظام لارہے ہیں، جس میں کلیئرنگ ایجنٹس کے لیے پوائنٹ سسٹم لایا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ایف بی آر میں آڈٹ کی صلاحیت کو بڑھانا ہے، 2 ہزار چارٹڈ اکاؤنٹینٹس کو ٹھرڈ پارٹی کے ذریعے انگیج کیا جارہا ہے تاکہ ٹیکس فائلنگ میں جو مطلوبہ فرق ہے اس کو ختم کیا جاسکے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس وصول کرنے والوں کے لیے سخت احتساب کا نظام ہوگا، ٹیکس ادا کرنے والوں کے خلاف عوامی سماعت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور فیصلہ کیس کی بنیاد پر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس پروگرام کو آئی ایم ایف کا آخری قرض پروگرام بنانا ہے تو ہمیں اس ملک میں نئے طریقہ کار اپنانے ہوں گے، ملک میں معیشت کے ڈھانچے کو بنیادی طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔انہوںنے کہاکہ ان اقدامات سے تھوڑے وقت کے لیے مشکلات ا?ئیں گی لیکن اگر ہمیں پائیدار ترقی کے راستہ پر جانا ہے تو جو مشکل فیصلے لیے گئے ہیں ان کو نافذ کیا جائے گا، آج سخت فیصلے نہ کیے تو دوبارہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ آئے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے دو بڑے مسائل ہیں جس میں آبادی کے بڑھنے کی شرح ہے جو 2.5 فیصد ہے جو پائیدار نہیں ہے، دوسری چیز موسمیاتی تبدیلی ہے، ہمیں خود کو موسم کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔