اسلام آبا د/کراچی(این این آئی)ملک میں رواں سال کا پانچواں پولیو کیس کوئٹہ سے متاثرہ بچے کی موت کے 17 دن بعد سامنے آیا، جس نے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے جاری مہم میں بڑی کوتاہی کی نشاندہی کردی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق 29 اپریل کو فالج کا شکار ہونے والے بچے کے کیس کی تصدیق 6 ہفتے تاخیر سے 8 جون کو ہوئی، جو پولیو کی تشخیص میں بڑی کوتاہی کی نشاندہی کرتی ہے، انسداد پولیو پروگرام کی قیادت کو پولیو کے پھیلاؤ کو روکنے میں بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری کے عہدیدار کے مطابق پولیو وائرس کا شکار ہونے والے متاثرہ بچے کی عمر 2 سال تھی جو وائرس کی تصدیق سے پہلے ہی انتقال کرگیا، جس کی تشخیص میں عام طور پر 3 ہفتوں کے بجائے 6 ہفتے لگے۔بچے کی خدمت پر معمور شخص نے بتایا کہ متاثرہ بچے کو دست اور قے (الٹی) ہوئی جس پر اسے کوئٹہ کے نجی اسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا، 10 دن بعد بچے کو نچلے حصے میں کمزوری محسوس ہونا شروع ہوئی جس میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔
بعد ازاں بچے کو این آئی سی ایچ کراچی لے جایا گیا، جہاں اسے شدید فلیکسڈ فالج (اے ایف پی) کے طور پر دیکھا گیا، بدقسمتی سے 22 مئی کو متاثرہ بچے کا انتقال ہوگیا، عہدیدار نے بتایا کہ یہ وائرس ڈبلیو پی وی ون کے وائے بی تھری اے کلسٹر سے تعلق رکھنے والے نمونوں سے بالکل الگ تھا۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کو سمجھنے کے لیے متاثرہ بچے کے بہن ، بھائی اور ایک کزن سے نمونے جمع کیے گئے جو ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھے، متاثرہ بچے کیبھائی اور کزن کے نمونوں میں ڈبلیو پی وی ون کے نمونے ملے، جس کی تاریخ گزشتہ 35 دنوں میں کسی دیگر ضلع سے نہیں ملی۔
ایک سوال کے جواب میں اہلکار نے کہا کہ بچے کو معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے دوران پولیو ویکسین کی ایک بھی خوراک نہیں ملی، اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ ویکسین سے انکار کا معاملہ تھا یا پولیو ٹیم کی جانب سے کوتاہی ہوئی، البتہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرہ بچوں نے اضافی حفاظتی ٹیکوں اس نے پولی ویکسین کی 5 خوراکیں لیں۔وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ملک مختار بھرتھ نے کہا کہ یہ کیس ہمارے لیے یادہانی ہے کہ جب تک پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا، کوئی بھی بچہ اس بیماری سے محفوظ نہیں ہے۔پولیو کے خاتمے کیلئے نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر محمد انوار الحق نے کہا کہ وائرس کے ماخذ کا پتہ لگانے اور ویکسینیشن کی کوریج میں ممکنہ خامیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے کیس کی تفتیش جاری ہے۔