لاہور( این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہمیں ٹیکس نظام کے ڈھانچے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے ،محصولات میں بہتری کے لئے ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو گا، ہر طرح کی سہولت دیں گے مگر ٹیکس نیٹ بڑھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ملک میں معاشی استحکام کا واحد حل نجکاری میں مضمر ہے،قومی زر مبادلہ کے ذخائر 9 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں،
آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے ، 24ویں آئی ایم ایف پروگرام میں ٹیکس میں سٹرکچرل تبدیلیاں نہ کی گئیں تو پھر ہمیں پچیسویں پروگرام میں جانا پڑے گا،معاشی استحکام کیلئے برآمدات میں اضافہ نا گزیر ہے جس کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ نجکاری کے عمل کی بھی مکمل حوصلہ افزائی کر رہے ہیں،روپے کی قدر مستحکم اور افراط زر میں کمی آرہی ہے، پچھلے 8 سے 10 ماہ میں میکرو اکنامک اشاریے صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں،
مالیاتی سطح پر نظم و ضبط آیا ہے ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارے 2 سے 3 مہینے سرپلس تھا لیکن اس مالی سال کا مجموعی خساری میں کمی ہوئی،اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ٹوٹے ہیں، یہ سب اہم چیزیں ہیں کیونکہ اب سرمایہ کار ہم پر اعتماد کر رہے ہیں،حکومت کا کام ہے پالیسی بنانا ہے،کام نجی شعبے نے کرنا ہے، مشکل سے نکلنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو لیڈ کرنا ہوگا، حکومت صرف پالیسی دے سکتی ہے، حکومت کا کام گورننس کو بہتر بنانا ہے،
بجٹ میں سیلز و انکم ٹیکس رعایتیں و چھوٹ مرحلہ وار ختم کرنے کی تجویز ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان کے زیر اہتمام پری بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرم شیخ ، سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا، چیئرمین اپٹما کامران ارشد،ایڈووکیٹ ڈاکٹر اکرام الحق ، سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس الماس حیدراوردیگر تاجر برادری کی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ تنخواہ دار طبقہ بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہے، ہمیں ٹیکس کے دبا ئوکو تقسیم کرنا ہے، ہم 3 ریفارمز پر کام کر رہے ہیں پہلا ٹیکس ٹو جی ڈی پی، دوسرا سرکاری اداروں کی نجکاری اور تیسرا توانائی ہے ،
ہمیں اسٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں ہمیں قانون پر عملدر آمد کروانا ہے، ٹریک اینڈ ٹریس پر عملدر آمد کیوں نہیں ہوا اس پر ہم کام کر رہے ہیں، ہمیں ان لیکجز کو روکنا ہے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے، اپریل میں ہم نے ٹیکس رجسٹریشن کے لیے مہم کا آغاز کیا تھا، لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں آنے سے انہیں ہراساں کیا جائے گا، ہم سب سہولت دیں گے مگر اس ٹیکس نیٹ میں لانے والی مہم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،ہم توانائی کے شعبے میں کام کر رہے ہیں، اس میں بھی عمل در آمد اور اصلاحات شامل ہیں، ہم نے ڈسکوز کو آگے لے کر جانا ہے تو ہم نے ان کے بورڈز کو تبدیل کردیا اور اس میں نجی شعبے کے لوگوں کو لارہے ہیں،
حکومتی پالیسیوں کے باعث غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے، ہم معیشت کو دستاویزی بنائیں گے، ہمیں کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارے کو ختم کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے عزم کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ کامیابی سے مکمل ہوا، اس میں عبوری حکومت کو بھی پورا کریڈٹ جاتا ہے، آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی، آج سے مذاکرات کا آغاز ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی ہدایات پر خصوصی حکومتی پالیسوں کی بدولت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے،
سٹاک ایکسچینج میں بہتری آئی ہے جبکہ روپے کی قدر مستحکم اور افراط زر میں کمی آرہی ہے،آنے والے دنوں میں ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی،ہمیں اس وقت میکرو اکنامک استحکام نظر آ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ٹیکس نظام میں اسٹرکچرل ریفارمز لانے کی ضرورت ہے،کرنٹ اکائونٹ اور بجٹ خسارا کو کم اورمحصولات میں بہتری کے لیے ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھانا ہو گا جس کیلئے قوانین میں اصلاحات اور اور قوانین پر سختی سے عملدرآمدکو یقینی بنانا ناگزیر ہے اس کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافہ بھی ملکی معیشت کیلئے انتہائی ضروری ہے جس میں اضافے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کئے جا رہے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کے حوالے سے آج جو تجاویز آئی ہیں میں ان سے متعلق بہت کلیئر ہوں، تمام صوبوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ چلیں گے، جو تاجر بھائی ٹیکس نیٹ کے باہر ہیں وہ خود ٹیکس نیٹ میں آ جائیں،بجٹ میں سیلز و انکم ٹیکس رعایتیں و چھوٹ مرحلہ وار ختم کرنے کی تجویز ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت میں نجی شعبے کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ،ہمیں اگر اس مشکل صورتحال سے نکلنا ہے تو نجی شعبے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا،حکومت کا کام پالیسی بنانا ہے کام نجی شعبہ نے کرنا ہے،حکومت نجی شعبہ کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ہمیں مختلف اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ میں غیر ملکی سرمایہ کار دلچسپی رکھتے ہیں،مقامی سرمایہ کاروں کو بھی سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور اس حوالے سے میں خودکیبنٹ کمیٹی کی صدارت کر رہا ہوں اور انشااللہ ہم اس کو اسی طرح آگے لے کر جائیں گے ۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ نجکاری سے متعلق وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی ایک اجلاس کی صدارت کی ہے جس میں معاشی استحکام اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں ،اس وقت ہم سب لوگ ایک پیج پر ہیں،معاشی اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے نا صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی اعتماد میں لیں گے تا کہ ملکی برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے ۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ معیشت کودستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے تاجر برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ جو تاجر برادری ٹیکس نیٹ سے باہر ہے انہیں بھی ٹیکس دہندگان کی فہرست میں لانا ہو گا اور اس حوالے سے تاجر برادری کی طرف سے دی گئی تجاویز قابل ستائش ہیں اور پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ بجلی چوری بھی معیشت کی خرابی کا ایک بڑا سبب ہے ، اسی لئے حکومت بجلی چوری کو روکنے کیلئے سخت اقدامات اٹھا رہی ہے، ہم نے بجلی کی چوری کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈز تبدیل کر رہے ہیں جس میں نجی شعبہ کوبھی شامل کریں گے ۔
انہوں نے کہاکہ ملکی معیشت میں خواتین کا بھی بڑا کردار ہے ‘خواتین کو بااختیار بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے ‘ اس حوالے سے ہمیں اپنے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو مثال کے طور پر دیکھنا چاہئے جہاں خواتین قومی معیشت کے دھارے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے اور بہت جلد مذاکرات کا آغا ز ہو گا۔انہوں نے کہا کہ 24ویں آئی ایم ایف پروگرام میں ٹیکس میں سٹرکچرل تبدیلیاں نہ کی گئیں تو پھر ہمیں پچیسویں پروگرام میں جانا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک سے درخواست کی گئی ہے کہ زراعت،آئی ٹی اور ایس ایم ای سیکٹر کی فنانسنگ بڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان تاجروں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرینگے جبکہ ٹیکس نیٹ بڑھانے پر بھرپور فوکس رہے گا، مذاکرات کریں گے لیکن ٹریک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔