سرگودھا(این این آئی)سرگودھا میں ’’طبی نظام میں جدید بنیادوں پر بریسٹ کینسر خواتین کی بروقت تشخیص اور علاج ‘‘ کے عنوان پر منعقدہ ورکشاپ میں بتایا گیا کہ فارماسسٹ کس طرح بریسٹ کینسر، ذیابیطس سمیت دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نگہداشت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
زرائع کے مطابق سرگودھا یونیورسٹی میں فارماسسٹس کی جانب سے طبی نظام میں جدید بنیادوں پر مریضوں کی دیکھ بھال‘‘ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ ورکشاپ میں اسسٹنٹ پروفیسر میڈیکل کالج ڈاکٹر ہارون الرشید نے کہا کہ بریسٹ کینسر ایک عام بیماری بن چکی ہے۔ ہر سال لاکھوں خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں۔
اگر اس مرض کی بروقت تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج ممکن ہے جس کی وجہ سے کئی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر بریسٹ کینسر کو چار مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اگر اس مرض کی تشخیص پہلے دو مراحل میں کر لی جائے تو مرض زیادہ پیچیدہ شکل اختیار نہیں کرتا اور اگر مرض کی بروقت تشخیص نہ ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل گلزار نے کہا کہ خواتین بریسٹ کینسر کے بڑھنے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔جن میں وزرش نہ کرنا، ہارمونز کا تبدیل ہونا اور وراثتی طور پر مرض منتقل ہونا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر بریسٹ کینسر کو سرجری، ریڈی ایشن تھراپی اور ہارمون تھراپی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ڈاکٹر بلال حبیب نے کہا کہ ذیابیطس ایسی بیماری ہے جو اپنے ساتھ بہت سی بیماریاں لے کر آتی ہے۔
ذیابیطس بنیادی طور پر وہ طبی حالت ہے جس میں متاثرہ شخص کے خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے یا اس میں بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں اگر ذیابیطس کو کنٹرول نہ کیا جائے تو انسانی جسم کے مخلتف نظام اس سے متاثر ہونا شروع جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر وقت پر اس کا علاج شروع نہ کیا جائے تو ذیابیطس متاثرہ شخص کے دل، خون کی نالیوں، نسوں، بینائی اور گردوں کو تیزی سے متاثر کرتی ہے۔
یوں وہ ان اعضا کی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ان میں کئی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن یعنی آئی ڈی ایف کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق چین اور انڈیا کے بعد پاکستان کا ان ممالک میں تیسرا نمبر ہے جن میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے مگر ذیابیطس کے مریض طرزِ زندگی میں تبدیلیوں اور ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ ذیابیطس کو کنٹرول کر کے ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ڈاکٹر محمد عثمان منہاس نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس ورکشاپ سے حاصل ہونے والی تربیت مستقبل کے فارماسسٹ طلبہ کیلئے کار آمد ثابت ہوگی۔